لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس نے ملک میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال پیدا کی ہے۔ دو حریف اب سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ انتخابی نتائج نے دونوں کو مجبور کردیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اقتدار کی تقسیم کا نیا نظام پاکستان کی سیاست کی عجیب و غریب صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ ایک جیسی رہتی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اچھی آئینی پوزیشن لے کر بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ نئے حکومتی نظام کے عارضی ہونے کا اشارہ ہے۔ رواں ہفتے حلف اٹھانے والی 19 رکنی وفاقی کابینہ میں 5 اتحادی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی پرانے چہرے تھے جن سے تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔

نئے ٹیکنوکریٹس کے علاوہ، وفاقی کابینہ میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کبھی حکومت میں اور کبھی حکومت سے باہر نظر آئے۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ایم) کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ تاہم سب سے اہم نئے وزیرخزانہ کی تعیناتی تھی جوکہ ایک مایہ ناز بین الاقوامی بینکر ہیں۔ محمد اورنگزیب کی کابینہ میں شمولیت نے ’معاشی گرو‘ اسحٰق ڈار سے وزارت خزانہ کا تخت چھین لیا ہے۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک اسحٰق ڈار کے بجائے ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ منتخب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے سائے سے باہر آرہے ہیں۔ یہ یقیناً مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی نوید ہے۔ اس کے باوجود نئے وزیر کے لیے چینلجز پریشان کُن ہوں گے۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے پاکستان کو اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔

لگتا یہ ہے کہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں معیشت سرِفہرست ہے اور ایسا بجا بھی ہے۔ کابینہ کے ساتھ اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کچھ ایسے اقدامات کو ترجیح دی جن سے ان کی حکومت کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن موجودہ بحران کے پیش نظر یہ اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ اس کے لیے یقینی طور پر کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔

اگلے چند مہینوں میں اقتصادی محاذ پر جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے کمزور مخلوط حکومت کے لیے صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا پہلا کام نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی آخری قسط کے اجرا کو یقینی بنانا ہے بلکہ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈز پر بات چیت کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہوگا کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

کمرشل بینکاری میں مہارت رکھنے والے نئے وزیرخزانہ کا یہ پہلا امتحان ہوگا۔ معاملہ صرف آئی ایم ایف معاہدے تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرضوں کی شرح میں کمی اور ریونیو بیس کو بڑھانا بھی ہوگا۔ مشکل حالات متزلزل نظام کے منتظر ہیں۔

ایک اور دلچسپ پیش رفت میں اسحٰق ڈار کو ملک کا وزیر خارجہ تعینات کردیا گیا ہے۔ اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہوگی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہوچکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے۔

یقینی طور پر اسحٰق ڈار وہ شخص نہیں جنہیں یہ اعلیٰ سفارتی عہدہ سونپا جاتا۔ یہ وہ آخری چیز ہونی چاہیے تھی جس پر نئی حکومت کو تجربہ کرنا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے سب سے قابلِ اعتماد لیفٹیننٹ کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ترین قیادت میں شامل ہیں، وہ نئی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور عہدیدار ہوں گے۔ ماضی میں بھی اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔

جہاں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے وزرا پی ڈی ایم حکومت میں کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں وہیں محسن نقوی کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ ڈیڑھ سال قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ان کی تقرری تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا کسی اتحادی جماعت سے نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کابینہ کے اہم قلمدان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔

ملک کے کچھ حصوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان وزارت داخلہ اہم ترین وزارت ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملی کہ ان کی تقرری کے پیچھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ فوج کی قیادت کے ساتھ محسن نقوی کے روابط کا اس وقت بھی خوب چرچا ہوا تھا جب وہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔

وہ اپنے نگران دور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پنجاب میں سنگین کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عملی طور پر ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدے سے نوازا گیا۔ محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری، اہم سرکاری عہدوں پر تقرریوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔

اتنے کم وقت میں میڈیا ہاؤس کے مالک سے اہم حکومتی وزیر تک ان کا سفر کافی حیران کُن ہے۔ دوسری طرف انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر بھی برقرار رکھے کا امکان ہے اور وہ سینیٹ کی نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہوگا کہ وہ مزید کتنا آگے جاتے ہیں۔

ابھی صرف کچھ وفاقی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں مزید تقرریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کی تعمیل کرنا ہوگی۔ صرف امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کابینہ پی ڈی ایم حکومت جتنی بڑی نہیں ہوگی جس میں 70 وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر شامل تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکموں کی صوبوں میں منتقلی کے باوجود کچھ وزارتیں وفاق میں اب بھی موجود ہیں جوکہ عوامی وسائل کے لیے نقصان دہ ہیں۔

سب سے اہم، ملک کو آگے بڑھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرروت ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کا سوال نئی حکومت کو اُلجھائے رکھے گا۔ اپوزیشن کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال پہلے سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔

حکومت کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کا اشارہ نہیں مل رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے مظاہروں میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ معیشت اور گورننس براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں لیکن یہ اقتدار میں موجود قوت یہ اہم سبق بھلا چکی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں