نیتن یاہو نے رفح میں زمین آپریشن نہ کرنے کی امریکی صدر کی درخواست مسترد کردی

20 مارچ 2024
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو— فائل فوٹو: رائٹرز
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو— فائل فوٹو: رائٹرز

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے رفح میں زمینی کارروائی کے منصوبے کو ترک کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق تقریباً ساڑھے پانچ ماہ سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ میں غزہ کی پٹی پر رفح کا چھوٹا سا علاقہ فلسطینیوں کے لیے واحد جائے پناہ ہے جہاں اس وقت لاکھوں لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔

نیتن یاہو نے منگل کے روز قانون سازوں کو بتایا کہ میں نے امریکی صدر پر بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہم رفح میں حماس کی بٹالین کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور زمینی کارروائی کے سوا ایسا کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کی پیر کو فون پر بات کی جس میں جو بائیڈن نے رفح میں زمینی کارروائی کا آپریشن ترک کرنے کی درخواست کی لیکن نیتن یاہو نے اس درخواست کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد بھی کردیا۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ امریکا کا ماننا ہے کہ رفح پر زمینی حملہ غلطی ہوگی اور اسرائیل دوسرے طریقوں سے بھی اپنے فوجی مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔

واشنگٹن نے تقریباً ساڑھے 6 ماہ سے جاری جنگ میں جنگ بندی کے لیے نئے طریقے سے سفارتی دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یرغمال افراد کی بازیابی کے ساتھ ساتھ غزہ میں لوگوں کو قحط سے بھی بچایا جا سکے۔

دوسری جانب امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کے دورے کا اعلان کیا جہاں وہ مصر اور سعودی عرب کے سینئر رہنماؤں سے ملاقات کریں گے تاکہ پائیدار امن کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے پر تبادلہ خیال کیا سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس دورے کے دوران غیر معمولی طور پر بلنکن نے اسرائیل میں رکنے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور اسرائیلی وزارت خارجہ نے بھی کہا ہے کہ انہیں اسے حوالے سے تیاری کے لیے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

رفح میں بمباری سے کھنڈر کا منظر پیش کرنے والے علاقے میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں غزہ کے 23 لاکھ باشندوں میں سے نصف سے زائد جنوبی سرحد پر نقل مکانی کرتے ہوئے انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

غزہ کے ہسپتال اور مردہ خانے لاشوں سے اٹے پڑے ہیں اور اپنے پیاروں کے غم سے نڈھال فلسطینی باشندے روزانہ لاشوں کو قبروں میں اتارنے میں مصروف نظر آتے ہیں جبکہ اس دوران دوسری جگہ بمباری سے مزید اموات بھی ہوتی رہتی ہیں

لاشوں کے پاس اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے غم سے نڈھال ابراہیم حسنہ نے کہا کہ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت، یورپی حمایت اور پوری دنیا کی حمایت موجود ہے، وہ انہیں ہتھیاروں اور طیاروں سے سپورٹ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عالمی طاقتیں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں اور صرف اپنا مکروہ چہرہ بچانے کے لیے فضائی سے امداد گرانے والے چار یا پانچ طیارے بھیج دیتے ہیں۔

گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی تھی جس میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ 257 افراد کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا۔

اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ شروع کیا تھا جو پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود مسلسل جاری ہے اور اس میں اب تک 32 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جبکہ مزید ہزاروں افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھوک اور قحط کی مانیٹرنگ کرنے والی ایجنسی نے پیر کے روز کہا کہ غزہ میں خوراک کی قلت پہلے ہی قحط کی سطح کو عبور کر چکی ہے اور جنگ بندی نہ ہونے کی وجہ سے غزہ کے باشندے جلد ہی قحط کے سبب مر جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جیریمی لارنس نے کہا کہ غزہ میں امداد کے داخلے پر اسرائیل نے مسلسل پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ دشمنی جاری رکھے ہوئے ہیں اور بھوک کو ایک جنگی حربے کے طور پر استعمال کررہے ہیں جو ایک جنگی جرم ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں