پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں پر حلف برداری کے کیس میں اپوزیشن ممبران کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسپیکر کو ممبران سے حلف لینے کا حکم دے دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

فیصلے میں اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کو ممبران سے حلف لینے کا حکم دیا گیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اسپیکر ممبران کو رول آف ممبرز پر دستخط کی اجازت دے اور مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی بھی اجازت دی جائے۔

اس میں کہا گیا کہ 2 اپریل کو ہونی والے سینیٹ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے بھی سہولت فراہم کی جائے۔

واضح رہے کہ آج مقدمے کی سماعت جسٹس عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد نے کی، خیبرپختونخوا کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر امیدواروں نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی، عدالت میں اسپیکر، امیدواروں کے وکلا نے دلائل دیے اور ایڈووکیٹ جنرل نے بھی معاونت کی۔

بعد ازاں عدالت نے اس مقدمے میں فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

دوران سماعت عدالت نے اسپیکر بابر سلیم سواتی کے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا اسپیکر آئین اور قانون پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہتے ہیں؟ کیا اسپیکر مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران سے حلف نہیں لینا چاہتے ہیں؟

اس پر وکیل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 109 کےتحت گورنر نے اجلاس طلب کرنےکے لیے خط سیکریٹری اسمبلی کو ارسال کیا، عدالت نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 106 کےتحت ممبران مخصوص نشستوں پرمنتخب ہوئےان سے حلف لیا ہے یا نہیں؟ کسی نے عدالت میں گورنر کے خط کو چیلنج نہیں کیا ہے،

پشاور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے 3 سوالات ہیں، کیا اسپیکر نے اپنی ذمہ داری پوری کی؟ کیا اسپیکر نے ممبران سے حلف لے لیا ؟ اور کیا اسپیکر کا منتخب ممبران سے حلف لینے کا ارادہ ہے؟

بابر سلیم سواتی کے وکیل نے جواب دیا کہ گورنر اسمبلی اجلاس طلب نہیں کرسکتے ہیں۔

عدالت نے اسپیکر اسمبلی کے خط پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب سیکریٹری اسمبلی قانون بنائے گا؟ اسپیکر خط کو چھوڑے اور یہ بتائے کہ کیا گورنر اجلاس طلب کرسکتا یا نہیں؟

وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اگر ایسا ہوتا رہا تو وزیر اعلیٰ کا اختیار تو ختم ہو جائے گا، ایک چوتھائی اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس طلب نہیں کیا ہے، اسپیکر گورنر کو خط لکھے گا جس پر گورنر اجلاس طلب کرے گا، اپوزیشن لیڈر نے بغیر طریقہ کار کے ہی سیکریٹری اسمبلی کو اجلاس بلانے کا گورنر کا خط دے دیا، جس پر سیکریٹری اسمبلی نے محکمہ قانون سے رائے طلب کی اور محکمہ قانون نے ایڈووکیٹ جنرل سے رائے طلب کی تھی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران الیکشن کمیشن سے نوٹیفائیڈ ہوچکے ہیں یا نہیں؟ کیا اسپیکر ان سے حلف لینا چاہتا ہے یا نہیں؟

اس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی حلف لینا چاہتے ہیں لیکن اس طرح اجلاس بلا کر نہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی اجلاس صرف قانون سازی کے لیے نہیں بلکہ حلف لینے کے لیے بھی بلایا جاتا ہے، اکثریت کے باوجود حلف روکے ہوئے ہیں آپ کو کس چیز کا ڈر ہے؟

جسٹس عتیق شاہ نے ریمارکس دیے کہ گورنر اجلاس صرف صوبائی حکومت یا وزیراعلٰی کی درخواست پر بلانے کا پابند ہے۔

اپوزیشن کے وکیل نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق فیصلہ بھی دیا، حلف نہ لینا لارجر بینچ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی بھی ہے، اگر اسپیکر حلف نہیں لیتا تو گورنر بھی حلف لے سکتا ہے۔

اس پر جسٹس عتیق شاہ نے دریافت کیا کہ کیا ممبران کی حلف برداری ہاؤس میں ضروری نہیں؟ وکیل اپوزیشن نے جواب دیا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے ممبران کو بلایا جائے تو بھی حلف براداری ہوسکتی ہے، گورنر کے پاس اجلاس بلانے کا اختیار ہے۔

جسٹس عتیق شاہ کا کہنا تھا کہ گورنر وزیر اعلی کی ایڈوائس پر اجلاس بلا سکتا ہے، لگتا ہے کسی نے تیاری نہیں کی بس سب صرف عدالت آگئے ہیں، گورنر کے پاس وزیراعلٰی، کابینہ کی سمری کے بغیر اجلاس بلانے کا آئینی اختیار نہیں۔

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ مسئلہ یہ ہےکہ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو رویہ الگ ہوتا ہے، اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پھر ان کا الگ رویہ ہوتا ہے، قومی اسمبلی میں آپ لوگ اور صوبائی اسمبلی میں یہ لوگ واویلا مچاتے ہیں، آپ لوگوں کو آئین سے کھلواڑ نہیں بلکہ پاسداری کرنی چاہیے، ممبران کا حلف اسمبلی اجلاس میں ہوتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس عتیق شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلٰی کا حلف اسمبلی میں نہیں ہوتا۔

وکیل اپوزیشن نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل اسپیکر کو اجلاس بلانے کا حکم دے دے۔

اسی دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمنخیل عدالتی معاونت کے لیے پیش ہوئے، اس پر جسٹس عتیق شاہ نے کہا کہ امید کرتے ہیں آپ کسی پارٹی کی نمائندگی کی بجائے عدالتی معاونت کریں گے،

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ یہاں بات آئین اور قانون کی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوئی ممبر ووٹ یا اسمبلی کے کسی کارروائی میں حصہ نہیں لے سکتا جب تک حلف نہ لے لے۔

جسٹس شکیل احمد کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد مسئلہ حل ہوجائے گا، آپ یہی کہنا چاہتے ہیں، آپ کی باتوں سے تو یہی لگ رہا ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ نہیں میں آئین اور قانون پر بات کروں گا، گورنر وزیر اعلی کے ایڈوائس کے بغیر اجلاس نہیں بلا سکتا ہے۔\

بعد ازاں ہشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں کے ممبران سے حلف نہ لینے کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر حلف نا لینے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسپیکر صوبائی اسمبلی کو کل تک عدالت میں جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

22 مارچ کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف برداری کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے فریقین کو ابتدائی نوٹس جاری کرتے ہوئے 4 دن میں جواب طلب کرلیا۔

دوران سماعت جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ قانون کی بالادستی ہونی چاہیے، سیاسی معاملات پر سیاست ہونی چاہیے، افسوس ہو رہا ہے کہ ہم کہاں پر ہیں اور ہمارے پڑوسی کہاں ہیں؟

واضح رہے کہ 6 مارچ کو پشاورہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر خیبرپختونخوا کی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روک دیا تھا۔

سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے حکم امتناع پر محفوظ فیصلہ سنادیا، عدالت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کل تک ممبران سے حلف نہ لینے کا حکم امتناع بھی جاری کردیا ہے، ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پری ایڈمیشن نوٹسز بھی جاری کردیے اور الیکشن کمیشن کو کل تک جواب جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں 7 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے کے حکم میں 13 مارچ تک توسیع کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں