وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ صرف سیکورٹی فورسز کی نہیں ہے، امن دشمنوں کے خلاف یہ جنگ ریاست کی جنگ ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعلٰی کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق اعلی سطح کا اجلاس ہوا جس میں سانحہ نوشکی کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

کوئٹہ میں ہونے والے اجلاس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس، چیف سیکریٹری بلوچستان سمیت اعلٰی سول و عسکری افسران نے شرکت کی، کمشنر اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) رخشان ڈویژن نے سانحہ نوشکی سے متعلق اجلاس میں بریفنگ دی.

اجلاس میں نوشکی واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سیکورٹی پلان کو از سر نو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس موقع پر وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف یہ جنگ صرف سیکورٹی فورسز کی نہیں ہے۔ امن دشمنوں کے خلاف یہ جنگ سیاستدان، سول آرمڈ فورسز، بیوروکریسی ، عدلیہ، میڈیا سب نے لڑنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف ریاست کی اس جنگ کو سیاسی ذمہ داری اور مشترکہ لائحہ عمل کے ساتھ لڑیں گے۔

وزیراعلٰی بلوچستان نے سانحہ نوشکی کے شہدا کے لواحقین کو 7 روز میں معاوضوں کی ادائیگی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔

یاد رہے کہ 12 اپریل کو صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 افراد سمیت کُل 11 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوگئے تھے۔

بلوچستان کے ضلع نوشکی کے ڈپٹی کمشنر حبیب اللہ موسی خیل نے کہا ہے کہ 12 اپریل کی رات 10 سے 12 مسلح افراد نے نوشکی تفتان شاہراہ این-40 پر سلطان چڑھائی کے قریب ناکہ بندی کی، مسلح افراد مختلف گاڑیوں کی چیکنگ کرتے رہے۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ مسلح افراد نے تفتان جانیوالی بس روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے، شناخت پریڈ کے بعد 9 مسافروں کو اغوا کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر نوشکی کاکہنا تھا کہ اطلاع ملنے پر پولیس، لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی تھی جس کے بعد نوشکی پولیس نے جائے وقوعہ کے قریب ایک پل کے نیچے سے اغوا کیے گئے 9 افراد کی لاشیں برآمد کرلی تھیں۔

مقامی سینئر پولیس افسر اللہ بخش نے اے ایف پی کو بتایا کہ مقتولین لاشیں بعد میں ہائی وے سے دو کلومیٹر ملیں جہاں ان سب کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں۔

مقتولین کے ہمراہ سفر کرنے والے عینی شاہد 50 سالہ طاہر حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسلح افراد کے گروپ نے ہائی وے پر راستہ روک کر بس کو رکنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے بتایا کہ مسلح افراد نے ہم سے پوچھا کہ ہم میں سے کون کون پنجابی ہے، جو لوگ اہلخانہ کے ہمراہ تھے دہشت گردوں نے انہیں چھوڑ دیا جبکہ بقیہ لوگوں کو بندوق کی نوک پر اپنے ہمراہ لے گئے، کچھ دیر بعد ہم نے کچھ فاصلے سے گولیوں کی آواز سنی۔

ایک اور عینی شاہد 46 سالہ زاہد عمران نے بتایا کہ اغواکاروں نے مغویوں کو برا بھلا بکتے ہوئے کہا کہ تم پنجابی ہمارے بچوں کو مارتے ہو، اٹھو اور ہمارے ساتھ چلو۔

تبصرے (0) بند ہیں