اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے عدلیہ میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، جس میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں تجاویز جمع کرا دیں، اس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں، ججز کی ذمہ داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔

تجویز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس توہین عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کو آگاہ کرے، اگر متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔

بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کر تے ہوئے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی، مجھے اس کیس میں وزیر اعظم سے بھی بات کرنی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لیے دے دی گئی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو وقت چاہیے ہو گا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے کل تک وقت دے دیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟

اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آگئے۔

وکیل اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے بتایا کہ ہم 45 منٹ لیں گے، اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔

اس موقع پر اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے۔

اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔

حامد خان نے دلائل کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ کے درمیان روسٹم پر اختلاف ہوگئے، سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کے لیے آدھا گھنٹہ مانگ لیا۔

شہباز کھوسہ نے بتایا کہ ہم نے ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے، ایگزیکٹو کمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ پتا نہیں کیوں یہ اپنی تشہیر چاہتے ہیں، شہباز کھوسہ نے جواب دیا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دستخط شدہ آرڈر کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کریں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے گزشتہ عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ پڑھنا شروع کردیا۔

قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ لکھا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں ہے، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے،

چیف جسٹس پاکستان نے سابق صدر عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ ہم کسی پرائیویٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، وکلا بتائیں کتنا وقت درکار ہوگا دلائل کے لیے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا اضافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

بعد ازاں پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔

’ہم نے 76 سال جھوٹ بولا اور سچ کو چھپایا‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2018-2019 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائی کورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں، ہم نے 76 سال جھوٹ بولا اور سچ کو چھپایا ہے، ہمیں اب خوف ختم کر کے سچ بولنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے صدر سپریم کورٹ بار سے مکالمہ کیا کہ ڈر کس بات کا ہے عوام کے سامنے سچ بولیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔

صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ بھی ماضی میں مداخلت پر خاموش رہی تو وہ بھی شریک جرم ہے، ،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت بتایا کہ ہم نے اپنی تمام پریس کانفرنس میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی مذمت کی اور اب ایک اتھارٹی بھی بن گئی ہے لیکن صحافی میرے پاس آ کر کہتے ہیں اظہارِ رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 2019 میں چیف جسٹس اور مجھ پر تنقید کی جاتی ہے لیکن ایک جج کو تنقید سے بے پرواہ ہو کر کام کرنا چاہیے، 3 نومبر 2007 کا اقدام سب سے بڑی توہین عدالت تھی لیکن اس پر کسی کو سزا نہیں ملی، آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ایک ڈسٹرکٹ جج مداخلت کے خلاف آواز اٹھائے گا؟

،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیے، لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ تنقید اور جھوٹ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، یہاں ایک کمشنر تھے اور انہوں نے جھوٹ بولا، تمام میڈیا نے چلایا، باہر ملکوں میں ہتک عزت پر جیبیں خالی ہو جاتی ہیں، صرف سچ بولنا شروع کریں، سزا جزا کو چھوڑیں۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں ایک مداخلت انتظامیہ، دوسری عدلیہ کے اندر سے اور تیسری سوشل میڈیا سے ہوتی ہے، سو موٹو اختیارات کا پچھلے ادوار میں غلط استعمال ہوتا رہا، وہ بھی ایک طرز کی مداخلت تھی، عدلیہ کی آزادی کی ذمہ داری صرف سپریم کورٹ پر نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے کام کرنا ہم ججز کا فرض ہے آپ کا فرض نہیں ، آپ نے حلف نہیں لیا میں نے لیا ہے، بہت سارے دباؤ ہو سکتے ہیں ہمیں تنخواہ ملتی اسی کام کی ہے، ہمیں اپنے ہیروز کو بھی سراہنا چاہیے جنہوں نے مارشل لا ڈکٹیٹرز کا سامنا کیا، وہ ہیروز ہین جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا اور چلے گئے۔

اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب تک غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا نوٹس نہیں لیا جائے گا درست نہیں ہو گا، عدلیہ کی خرابی ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات میں کتنا وقت لگ جاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ اگر کچھ ہو جائے تو جیسے آپ وکلا سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اسی طرح ججز اکٹھے ہو جائیں، جب ججز اکٹھے کھڑے ہو جائیں تو کوئی کچھ کر ہی نہیں سکتا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے کہا کہ حساس معلومات کی سیکیورٹی کے لیے ویلز میں ججز نے ایک انٹرانیٹ بنایا ہوا ہے، ججز کو اپنے انٹر کمیونیکشن کو محفوظ کرنے کے لیے انتظام کرنا چاہیے، یہ میری پہلی رائے ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس پوائنٹ پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ مداخلت ہوتی کیوں ہے، پہلے تسلسل سےمارشل لا لگا کرتا تھا وہ رک گئے پھر 82 بی آگئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں، اگر کسی سول جج کو کوئی جوتا مار دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ مک مکا کر لیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جج قتل کے مقدمات سنتے ہیں، موت کی سزائیں سناتے ہیں، ان پر بھی تو پریشر ہوتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا ہے کہ زیادہ خرابی ہمارے اپنے اندر ہے۔

وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے دلائل دیے کہ پاکستان پہلا ملک نہیں جہاں ایسے اقدامات ہوئے، میں نے ایک فہرست لگائی ہے کہ کن کن ممالک میں ایسا ہوا، امریکا سمیت مختلف یورپی ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جو غلطی ہو اس کی نشاندہی کا ہمیشہ کہتا ہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چھ ججز کا خط ایک حقیقت ہے اس کو دیکھیں، ایسی صورتحال میں خوف کا تصور کیسے ہوگا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر ہر جج اپنے آپ کو مضبوط کرلے کہ کوئی رابطے کی کوشش نہ کرے، یا پھر کوئی ڈر ہوکہ کرے گا تو یہ ہوگا، اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں مداخلت ہو بس ہمیں تگڑا ہونا چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل صاحب آپ دلائل دیں ورنہ ہم اپس میں لگے رہیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ فرض کریں کہ مجھے دھمکی آتی ہے کہ اس کیس کا یہ فیصلہ کر دیں، میں شکایت دائر کروں وہ بہتر ہے یا وہ اختیار جو میں خود استعمال کر سکتا ہوں وہ؟ میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں،گزشتہ سماعت پر پوچھا گیا کہ خفیہ ادارے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں؟ مداخلت ہو ہی کیوں رہی ہے؟ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں، 2018 کی مداخلت سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملا آج کسی اور کو مل رہا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل احمد حسن سے استفسار کیا کہ آپ کس معاملے کی تحقیقات چاہتے ہیں، 6ججز نے مشترکہ خط لکھا، اور حتمی ذمہ داری تو وفاقی حکومت کی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کسی مہذب معاشرے میں اب تک سزائیں دی جا چکی ہوتیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو اسی لیے بلایا تھا کہ وہ پوچھتے کہ کس نے مداخلت کی ہے، کیا انہوں نے کچھ کیا۔

بعد ازاں، سپریم کورٹ نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

کیس کی آئندہ تاریخ بنچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی، سپریم کورٹ

یاد رہے کہ یکم اپریل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

3 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انٹیلیجنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے۔

پس منظر

واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔

اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔

تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کی تھی جس کے تحریری حکم نامے میں معاملے پر ردعمل کے لیے تجاویز طلب کی گئی تھیں۔

معاملے پر اعلیٰ عدلیہ کا بطور ادارہ ردعمل کیا ہونا چاہیے اس پر سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل،سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کر لیں تجاویز طلب کی ہیں۔

حکمنامہ میں تجاویز کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ کس طریقہ کار کے تحت مستقبل میں ایسے معاملات سے بچا جا سکتا ہے، ذمہ داروں کا تعین اور ان کے خلاف کاروائی کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے اس حوالے سے تجاویز دی جائیں۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، ہائی کورٹس کے رجسٹرار اور وفاقی حکومت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کیے جائیں کیونکہ قانون کی آئینی تشریح کے حوالے سے معاملات سوالات زیر غور ہیں۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ سینئر وکیل حامد خان اور خواجہ احمد نے نشاندہی کی تھی کہ انہوں نے خط سے متعلق آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت پٹیشش دائر کی ہے لہٰذا اسے فوری سنا جائے لیکن انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کورٹ کے تحت سنا جا رہاہے اس لیے اسے پہلے تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے نظرثانی کے لیے پیش کیا جائے گا اور کمیٹی کی جانب سے منظوری کے بعد سنا جائے گا۔

خط کا متن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے منظر عام پر آنے والے خط میں کہا گیا تھا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور احتساب عدالت اسلام آباد میں مقدمات کے ٹرائل میں مداخلت کرتے ہیں۔

خط کے مطابق ان الزامات کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی گئی تھیں۔

اس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تحقیقات کیے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برترفی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔

خط کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مؤقف کی جیت ہوئی ہے تاہم غیر قانونی برطرفی کا ازالہ ممکن نہیں، کیا اس وقت واقعی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے؟ اس کا جواب نہیں مل سکا ہے، اگر خفیہ ایجنسی کے اہلکار واقعی عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے میں ملوث تھے تو کیسے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

متن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی میڈیا انٹرویوز میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔

خط میں کہا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

خط میں کہا گیا تھا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ عدالتی امور میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے لیے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

اس کے ایک روز بعد مختلف حلقوں سے اس کی تحقیقات کے مطالبات سامنے آئے، جس کے پیشِ نظر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔

28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔

31 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انٹیلی جنس اپریٹس کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں