وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود 9 مئی کے مجرموں کو اب تک سزا نہ مل سکی، ان کو کٹہرے میں نہ لایا جاسکا، ان کو آئین اور قانون کے مطابق سزائیں نہ مل سکیں۔

وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ہے وہ چبھتا ہوا سوال جو پوری قوم پوچھتی ہے، وہ تمام ادارے جن کے لیے یہ ذمہ داری فرض کی گئی ہے، ان سے پوچھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں، پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک سیاہ دن تھا، ایک ایسا دن جب غازیوں کی یادگاروں پر جو خوفناک حملے ہوئے، وہ مناظر آج بھی پوری قوم کے سامنے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ آج پارلیمنٹ کی اس عمارت میں کابینہ کے اجلاس کا مقصد یہی ہے کہ یہ ایوان قوم کی ملکیت ہے، اور آپ کے حقوق کی ترجمانی کا مرکز ہے، آج ہم پارلیمنٹ کی اس بلڈنگ سے پوری قوم کو یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے شہدا، ہیروز اور ان کے اہل خانہ کو نہ صرف قیامت تک یاد رکھیں گے بلکہ ان کے لیے والہانہ یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حملے کیوں کیے گئے، اس لیے کہ مئی 2023 میں پی ڈی ایم کی حکومت پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے سر توڑ کوشش کررہی تھی، شاید یہ حملے نہ ہوتے اگر یہ کٹھ پتلی حکومت کو ایک آئینی طریقے سے ہٹایا نہ جاتا، شاید یہ حملے نہ ہوتے کہ اگر پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ جو تعلقات کو خرابی کے حوالے سے آخری حد تک پہنچا دیا گیا تھا، اس کو پی ڈی ایم کی حکومت پوری یکسوئی کے ساتھ دوبارہ بہتر کرنے میں دن رات کوشش کررہی تھی، اس کے لیے یہ حملے کیے گئے کہ تعلقات دوبارہ استوار نہ ہوں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 9 مئی 2023 شاید کو یہ حملے نہ کیے جاتے کہ اگر خانہ کعبہ کی ماڈل کی گھڑی اور زیورات اور زمینوں کی خرید و فروخت اور کرپشن کی بھرمار تھی، اگر اس کا نوٹس پی ڈی ایم کی حکومت نہ لیتی، تو شاید یہ حملہ نہ کیا جاتا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ شاید یہ حملہ نہ کیا جاتا اگر 190 ملین پاؤنڈ میں جو بدترین خیانت کی تھی، جو ایک قومی جرم تھا، اگر پی ڈی ایم کی حکومت اس کا نوٹس نہ لیتی تو شاید یہ حملے نہ کیے جاتے۔

انہوں نے کہا کہ شاید یہ حملے نہ کیے جاتے اگر بعض اہم عہدوں پر میرٹ سے ہٹ کر پی ڈی ایم کی حکومت تقرریاں کر دیتی۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ شاید یہ حملہ نہ ہوتا اگر چیف الیکشن کمشنر کا آفس فارن فنڈنگ کا نوٹس نہ لیتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ 9 مئی کو نہ صرف پاکستان کے خلاف بغاوت کی گئی بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کی گئی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی جمہوری ملک، کوئی آئین اور قانون پر چلنے والا ملک اپنے شہدا کے ساتھ یہ سنگین مذاق اور ان کے خلاف جو بدترین زبان استعمال کی گئی، اور جس طرح جتھے ان پر حملہ آور ہوئے، تو کیا کوئی ملک برداشت کر سکتا تھا؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب صاف نفی میں ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے سوال اٹھایا کہ امریکا، برطانیہ میں فسادیوں کو چاہے وہ 2007 ہو، چاہے وہ 2021 میں وہاں پر حملے ہوئے، کیا انہیں کھلی چھٹی دی گئی، کیا وہاں پر کالم نگاروں اور دانشوروں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، کیا ان کو سزائیں نہیں دی گئیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے فسادیوں کو جو قوم کے خلاف بلاسوچے سمجھے اور اپنی ذات کے لیے جہاں پر بھی حملہ آور ہوئے، قانون نے ان کو اپنی گرفت میں لیا۔

ان کا کہنا تھاکہ سب سے بڑی مثال بابائے قوم قائداعظم کی ہے کہ ان کی تاریخی جدوجہد تھی، ان کی جو محنت تھی، کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ جہاں پر بدزبانی، گالم گلوچ یا اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم کی تحریک، ان کی لیڈرشپ ان تمام چیزوں سے بلند ہے اور وہ پوری قوم کے سامنے مثال ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں کہ کیا کیا کڑے امتحانات سے سیاستدان نہیں گزرے، کتنی کتنی عظیم سیاستدانوں نے قربانیاں نہیں دیں، جیلیں برداشت کیں، ہتھکڑیاں، مگر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ماسوائے 9 تاریخ کے واقعے جب کبھی سیاستدان اس طرح کے واقعات سے گزرے تو کسی نے کہا کہ پاکستان کھپے، اور کسی نے کہا کہ تمام تر مشکلات اور ظلم کے پہاڑ کو برداشت کیا اور کہا کہ میں پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی بولنا تو دور کی بات میں سوچ بھی نہیں سکتا، یہ ہیں وہ مثالیں جو پاکستان کی حالیہ تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج ہم یہاں پر کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا ہے، 9 مئی کے حوالے سے جنہوں نے حملے کیے، وہ چاہتے ہیں کہ آج جھوٹ کا پردہ گرا دیا جائے، قوم کو جھوٹ اور تمام تر دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعے قوم کی توجہ وہ دوسری طرف مبذول کروائی جائے۔

شریف شہباز نے کہا کہ یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے 35 پنکچر کی بات کی تھی، اور جب اس کا راز کھلا تو ان کے پاس منہ چھپانے کی کوئی جگہ نہیں تھی، یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے سائفر کے حوالے سے کیا کیا پینترے بدلے، اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری کے موجب بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے کے دلخراش مناظر پوری قوم نے دیکھے لیکن آج تک جنہوں نے بغاوت پر اپنے جتھوں کو اکسایا، بغاوت کا ایک منظم پروگرام بنایا وہ آج تک اس کو جھٹلاتے ہیں، اور جھوٹ کے ذریعے ان حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سچ سچ ہوتاہے، جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے، ایک سچ 10 سال بعد، 20 سال بعد سامنے آتا ہے۔

وزیراعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ویڈیوز دیکھیں، وہ کس طرح کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اس سازش اس بغاوت کے منصوبے کو بنایا، اور سازشیوں کو اکسایا، کوئی بس کے اوپر چڑھ کر کہہ رہا ہے کہ میں فلاں جگہ جا رہا ہوں، ایک خاتون کہہ رہی ہے کہ فلاں جگہ پہنچ گئی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ دشمن کو بھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ اس طرح کی حرکت کا سوچ سکتا، میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ بات طے ہے کہ یہ بغاوت کا منظم منصوبہ تھا، پوری طرح اس کی منصوبہ بندی کی گئی، اور ان جتھوں کو بتایا گیا تھا کہ آپ نے کب، کہاں اور کس جگہ آپ نے حملہ کرنا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ یہ بغاوت اداروں، پاکستان کے خلاف تھی، یہ پاکستان کے عوام کو تقسیم کرنے اور لڑانے کی ایک منظم سازش تھی، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ کوئی قبیح منصوبہ نہیں ہوسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ دشمن نے ایک مرتبہ نہیں ایک سے زیادہ مرتبہ کوشش کی لیکن پاکستان کے عوام کی دعاؤں اور ان کے اتحاد، یکجہتی اور افواج پاکستان کی عظیم تربیت اور بہترین کارکردگی کے نتیجے میں ہر مرتبہ دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج سوشل میڈیا پر تشہیر کی جارہی ہے، پاکستان سے باہر جو فارن فنڈنگ کے جو تانے بانے ملتے ہیں، زہر آلود پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، یہاں تک کہ بات گالی گلوچ تک پہنچ چکی، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ گھناؤنا کردار ہے جس نے پاکستان کے اندر اس طرح کی تقسیم کو اس نہج پر پہنچایا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک دشمن عناصر، دوست نما اور ہمدرد کے لبادے میں بدترین دشمنی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی شہ رگ کاٹنے کے لیے آئی ایم ایف، عالمی بینک کو خطوط لکھوائے گئے، اور پتلے جلائے گئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ 9 مئی کا اصل مقصد پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ، آئین کو خدانخواستہ دفن کرنا اور فرد واحد کی بادشاہی اور ڈکٹیٹرشپ کا قیام عمل میں لانے کا بہت ہی مذموم منصوبہ تھا، اس مقصد کے لیے پاکستان کے اندر عوامی اتحاد کو توڑنا، فوج کے لیے عوام کی محبت کے جذبات کو ختم کرنا اور بغاوت کے ذریعے خانہ جنگی کو پھیلانا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس کی کمال مہربانی اور پاکستان کے کروڑوں عوام کی دعاؤں سے انتہائی قبیح منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا بلکہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا، لیکن سوچنے کے بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود 9 مئی کے مجرموں کو اب تک سزا نہ مل سکی، ان کو کٹہرے میں نہ لایا جاسکا، ان کو آئین اور قانون کے مطابق سزائیں نہ مل سکیں، یہ ہے وہ چبھتا ہوا سوال جو پوری قوم پوچھتی ہے، وہ تمام ادارے جن کے لیے یہ ذمہ داری فرض کی گئی ہے، ان سے پوچھتی ہے۔

’9 مئی سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت تھی‘

وزیراعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں 9 مئی کے حوالے سے اپنے شہدا کو اور اپنے ہیروز کو ہمیں سلام پیش کرنا ہے، میں یہاں پر کہنا چاہتا ہوں کہ 9 مئی کا ناپاک منصوبہ نہ صرف پاکستان کے خلاف سازش، بغاوت تھی، ریاست کے خلاف بغاوت تھی یہ افواج پاکستان کے خلاف بغاوت تھی، اوریہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت تھی۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ شہدا کے خاندان کے افراد کیا سوچتے ہوں گے کہ ہمارے پیارے جان ہتھیلی پر رکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اپنے بچوں کو یتیم کرگئے مگر کروڑوں بچوں کو یتیم ہونے سے بچا گئے، وہ آج کیا سوچتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ9 مئی کو جو کیا گیا، اس سے زیادہ میں سمجھتا ہوں کہ دلخراش مناظر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ آج ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان کو مل کر بحرانوں سے نکال کر معاشی بہتری کے لیے کام کریں گے، اور اس راستے پر ہم پہلے ہی ان دو ماہ میں گامزن ہو چکے ہیں۔

قبل ازیں، وزیراعظم نے کہا تھا کہ قوم اور تاریخ سانحہ 9 مئی کےکرداروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ 9 مئی سوچوں کو الگ الگ کرنے والا دن ہے، ایک طرف قوم کے عظیم بیٹے، ان کے اہلخانہ ، محب وطن عوام ہیں تو دوسری طرف وہ کردارہیں جن کے دل میں ریاستی مفادات کا کوئی درد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے، ترقی کی منازل طےکرنی ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل دینا ہے۔

9 مئی کے پرتشدد واقعات سے متعلق رپورٹ اجلاس میں پیش

وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب قومی سطح پر اس طرح کے واقعات ہوں جو سانحے سے کم نہیں ہیں، تو زندہ قومیں ہمیشہ اصلاح کے لیے اس کے اسباب تلاش کرتی ہیں اور پھر آگے بڑھنے کا راستہ بھی بتایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف آپ کے سابقہ دور حکومت میں جب یہ واقعہ ہوا تو آپ نے اس پر فوری طور پر ممکنہ اقدامات بھی کیے، جس شہر میں یہ واقعات ہوئے، وہاں کی صوبائی حکومتوں نے اس پر فوری طور پر اس پر ایکشن کیا، اس سلسلے میں ہونے والے تحقیقات کو دیکھتے رہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جانفشانی سے کام کیا، ہمیں ملک کی معشیت کو سہارا دینے کے لیے استحکام چاہیے، یہ جو دنگا فساد ہے کسی بھی ملک کی بنیاد کو ہلانے کی جڑ ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ 5 جنوری 2024 کو اس وقت کی نگران حکومت کی کابینہ میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک کیبنٹ سب کمیٹی قائم کی جائے، وہ کمیٹی وزیر قانون کی زیر سربراہی بنائی گئی، کمیٹی کے ٹی او آرز کے مطابق یہ طے کرنا تھا کہ نو مئی کے محرکات کیا تھے۔

انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ تحریک عدم اعتماد کے آئینی اقدام کو رجیم چینج آپریشن کا نام دے کر لوگوں کی ذہن سازی کی گئی کہ یہ بیرونی سازش ہے، پھر عدالتی فیصلوں کے ذریعے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ بیانیہ گھڑا گیا تھا، پھر کچھ چیزیں بھی سامنے آگئیں کہ سازش کے معاملے پر ابھی کھیلو۔

وزیر قانون نے بتایا کہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں وجوہات کے ساتھ ساتھ تمام دستیاب اعداد و شمار لینے کے بعد تعین کیا کہ ان تمام واقعات کی ذمے داری ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے، اس نے اس کو تیار کیا اور اس پر عمل درآمد کیا۔

کمیٹی نے اس کے فوری اور دیر پا اثرات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی، اس نے اس طرح کے قومی سلامتی کے خلاف واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے جن میں میڈیا کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دینا، قومی ہم آہنگی، دنگا فساد کے خلاف شعور پیدا کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں، اور اس حوالے سے کچھ قانون سازی کے حوالے سے سفارشات بھی تجویز کی ہیں جس کی وجہ سے موثر پراسیکیوشن ہو اور عوام کو انصاف کی فراہمی بھی ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس کا مختصر سا خلاصہ تھا، آج 9 مئی کی مناسبت سے یہ رپورٹ اجلاس میں پیش کی گئی۔

مجرموں کے ساتھ ویسا بےدردانہ سلوک ہونا چاہیےجیسا ملک کو نقصان پہنچایا گیا، نوید قمر

اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ سانحہ 9 مئی میں لوگوں کے ساتھ ویسا ہی بےدردی کا سلوک ہونا چاہیے جس طرح انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ آج کا یہ اجلاس بہت اہم ہے جس میں کابینہ اراکین کے علاوہ اتحادی جو حکومت کا حصہ ہیں جو حکومتی بینچز کا حصہ ہیں، اس حکومت کو لانے میں جن کا کردار رہا ہے، ان کو آپ نے مشاورت کے لیے اور اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے مدعو کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعہ کہ اہمیت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا، جو کچھ ہوا، پاکستان کی تاریخ میں کم ہی کوئی واقعہ آپ کو ایسا نظر آئے گا جس میں ملک دشمنی کی حد تک چییزیں کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مجھے خاص کر جو بات کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اب ہم اس کی مذمت سے آگے چلیں، جو لوگ اس میں براہ راست ملوث تھے، میرا خیال ہے کہ انہیں اب اس طرح سے عوام کے سامنے لایا جائے ، اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کا ٹرائل چلتا ہے، جب مروجہ قوانین کے مطابق اس کا مقدمہ چلے گا تو ہی لوگوں کو موجودہ دستیاب حقائق کے ساتھ پتا چلے گا کہ اس میں کون لوگ ملوث تھے۔

نوید قمر نے کہا کہ جو لوگ اس میں ملوث نہیں ہیں، انہیں کلیئر کرتے جائیں تاکہ پارلیمنٹ میں بھی ایک کام کرنے کا ماحول بننا چاہیے، لیکن جو لوگ اس میں ملوث ہیں، انہیں ضرور سزا ملنی چاہیے، ان کے ساتھ اسی طرح سے سلوک ہونا چاہیے جس طرح سے انہوں نے بے دردی سے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔

کبھی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف محاذ آرائی کا سوچا تک نہیں، اعجاز الحق

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا کہ ہم نے اپنی 35 سالہ سیاست میں احتجاج کیے، ہڑتالیں کی لیکن جو کچھ 9 مئی کو ہوا، اس کا سوچا بھی نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی اپوزیشن کے ساتھ تو لڑ سکتے تھے لیکن کبھی ایسا ذہن میں خیال بھی نہیں آیا کہ اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یا اس کے خلاف کوئی محاذ آرائی کریں۔

اعجاز الحق نے کہا کہ یہ ایک بہت بدقسمت واقعہ تھا، جن لوگوں نے اس واقعہ کو سمجھا، زیادہ تر نے اس کی فوری مذمت کی، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، میں نے کہا تھا کہ یہ آج کا دن پاکستان کی تاریخ میں خاص طور پر جمہوری تاریخ میں ایک سیاہ دن ہے، اس میں جو لوگ ملوث تھے ان کو سزائیں ضرور ملنی چاہییں۔

انہوں نے کہا کہ ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری قوم کو ملک کے ایک کم از کم ایجنڈے پر ، ایسے ایجنڈے پر جو آپ کا یا میرا نہیں ملک کا ایجنڈا ہو، اس پر اتفاق کرنا چاہیے، اس وقت ہی یہ ملک آگے بڑھ سکےگا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 126 دن کا دھرنا ہوا تو چینی وزیر اعظم نے اپنا دورہ ملتوی کردیا تھا جب کہ حالیہ دنوں میں ایرانی صدر سمیت اہم دورے ہوئے ہیں جس سے ملک کا اچھا تاثر دنیا میں گیا ہے۔

شہید کے مجسمے کو پٹخنے کی ایک قیمت ہونی چاہیے، علیم خان

خصوصی اجلاس کے دوران وفاقی وزیر عبد العلیم خان نے کہا کہ 9 مئی کا واقعہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن ہے، جب ہم نے اس کا دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ جائزہ لیا تو دیکھا کہ احتجاج اور آزادی اظہار رائے حق ہے لیکن ملک کے لیے ایک ریڈلائن ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیپٹیل ہل پر حملہ ہوا اس کے بعد ٹرائل ہوا اور 6 سو لوگوں کو سزا ہوگئی، اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کو، لوگوں کو اکسانے والے کو 18 سال کی سزا ہوئی، اسپیکر کی کرسی اور میز پر پاؤں رکھ کر بیٹھنے والے شخص کو 14 سال سزا ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ شہید کے مجسمے کو سڑک پر پٹختے ہیں تو اس کی ایک قیمت ہونی چاہیے، جب آپ لائن عبور کرتے ہیں تو اس ریاست کو اپنی رٹ دکھانی چاہیے، سیاست کو اس سے الگ ہونا چاہیے، یہ سیاست نہیں ہے، جن لوگوں نے اس ملک کے وقار، اس کے شہدا کے ساتھ اس طرح کی حرکت کی ہے، قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا تھا کہ آج 9 مئی کے دلخراش واقعہ کی مذمت کے لیے کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا گیا ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں پیپلز پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی، نیشنل پارٹی کو بھی مدعو کیا گیا ہے، تمام اتحادی پارٹیوں کی نمائندگی ہوگی اجلاس میں۔

انہوں نے بتایا کہ آج کابینہ اجلاس میں 9 مئی کے حوالے سے قرارداد منظور کی جائے گی، وزارت قانون کی طرف سے وائٹ پیپر بھی پیش کیا جائے گا۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ 9 مئی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اس دن ایسی حرکت سیاسی مقاصد کے لیے کی گئی جو کبھی دشمنوں نے بھی نہیں کی تھی۔

وفاقی وزیر کے مطابق بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو بہت رعایت برتی گئی ہے، سابق وزیر اعظم کی بہنیں اور بھانجے بھی 9 مئی واقعہ میں ملوث ہیں، میرا سوال ہے کہ 9 مئی کے حوالے فیصلہ عدالتیں کیوں نہیں کر رہی ہیں؟ جب عظمی، علیمہ اور نورین خان تینوں وہاں موجود تھیں تو ان کو رعایت کیوں دی گئی؟

واضح رہے کہ 9 مئی 2023 کو سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد فسادات کے نتیجے میں نمایاں بے امنی دیکھی گئی تھی۔

9 مئی کو مشتعل افراد کی جانب سے ملک بھر میں مختلف مقامات پر عسکری تنصیبوں پر حملے، جلاؤ گھیراؤ اور مظاہرے کیے گئے تھے، اس دوران سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں