دفتر کے ایک ساتھی نے پہلی بار 'صنفی امتیاز' کی اصطلاح سنی تو وہ سمجھا یہ اپنے کولیگ امتیاز کی بیوی کا نام ہے۔ اس میں اس کی کچھ خاص غلطی نہیں تھی کیونکہ پاکستانی معاشرے میں یوں تو ہر قسم کے امتیازات پائے جاتے ہیں لیکن صنف کی بنیاد پر نہیں۔ ہر صنف کو دوسروں کے ساتھ امتیاز برتنے کی ایک جتنی آزادی ہے اور سب اس آزادی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مرد اس معاملے میں ذرا سے مختلف ہیں کہ ان کے ساتھ شدید ترین امتیاز برتا جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ الٹا انہیں یہ یقین دلا کر شرمندہ کرنا آسان ہوتا ہے کہ وہی سب سے زیادہ امتیاز برتنے والے ہیں۔ حالانکہ بچوں کو ریپ کرنے والے سے لے کر ڈبل شاہ ٹائپ کے روحانی معاشی پیشوا تک سبھی مرد اپنے کام میں صنف کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں کرتے۔

اسی طرح ان کے ساتھ امتیاز برتنے والی عورت ہو یا خواجہ سرا، انہیں ذرا سی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ وجہ ہے کہ مردوں کے ساتھ ہونے والے صنفی امتیاز کے بارے میں کوئی اعداد و شمار جمع ہو سکے نہ ہی انہیں یہ آگاہی دی جا سکی کہ انہیں اس زیادتی کے خلاف آواز اٹھانی چاہییے۔

دراصل مرد کو بہت کم عمری سے امتیاز سہنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ بچپن میں لڑکیاں جب ناخن پالش لگانے اور بالوں کو لمبا اور گھنا بنانے کے گر سیکھ رہی ہوتی ہیں، اس وقت لڑکے سائکل کے کیرئیر پر گیس کا وزنی سلنڈر ڈھو رہے ہوتے ہیں یا بازار سے سودا سلف لانے کے کام پر لگے ہوتے ہیں۔

گھر میں کوئی مہمان آ جائے تو انہیں صرف لڑکی پر پیار آئے گا: 'کتنی پیاری بچی ہے 'بالکل ماں پر گئی ہے' جبکہ گرمی میں پیدل چل کر ان کے لیے سموسے لانے والا لڑکا جو بہن سے صرف دو قدم پیچھے کھڑا ہوتا ہے، انہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔ اسکول میں بھی استاد کا لاڈ صرف لڑکیوں کے لیے اور غصہ لڑکوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔

لڑکے یہ سب دیکھتے ہیں، اسے تسلیم کرتے ہیں، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیتے ہیں۔ انہوں نے برسوں سے کسی امتحان میں پہلی پوزیشن لی ہے نہ اسکول کے الیکشن میں۔

انہیں سمجھا دیا گیا ہے کہ عورت کو آگے بڑھنے دینا ہی مردانگی ہے۔ اور یہ سارے سبق سیکھ کر جب وہ کام دھندے سے لگتے ہیں تو انہیں کوئی نہیں بتاتا کہ یہاں مردانگی اور زنانگی کے معیار مختلف ہو گئے ہیں۔

سو جب ایک نوجوان دفتر میں اپنی ساتھی خاتون کو آگے لگانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ سمجھ نہیں پاتا کہ جواب میں اس پر صنفی امتیاز یا صنفی تشدد کا الزام کیسے لگ گیا۔

بہرحال یہ واقعہ بھی اس کی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی وہ خواتین ساتھیوں کے ساتھ گذارا کرنا سیکھتا ہے اور اگر نوکری بچ جائے تو دوسری بار کبھی نہیں پکڑا جاتا۔ لیکن جب نوکری بدلتی ہے تو گزشتہ سب تجربات بھی اس کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں اور نئی جگہ جا کر اسے نئے سرے سے یہ تجربات کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

نوجوان ملازم پر ہی کیا موقوف، تجربہ کار باس بھی کبھی مروت میں نئی خاتون ساتھی کو ویلنٹائن ڈنر کی دعوت دے کر پھنس جاتا ہے اور کسی بڑی کمپنی کا مالک تو بیچارہ ہر سال جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرتا ہے اور الزام لگانے والیوں میں پیسے تقسیم کرتا رہتا ہے لیکن کبھی، کسی مرد نے امتیاز کی دہائی دی نہ ہی کسی فرد یا جنس کو مورد الزام ٹھہرایا۔

عورت کے ساتھ بھی امتیاز برتا جاتا ہے، اور عورت بھی دوسروں کے ساتھ امتیاز برتتی ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اپنا حق نہ ملے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے اور جب وہ دوسرے کی حق تلفی کرتی ہے تو اس توقع کے ساتھ کہ اس کی اس حرکت کو کیوٹ سمجھا جائے۔

یہ سبق بھی اس نے اپنے بچپن سے سیکھا ہوتا ہے کہ لوگ دو ہی قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو تنگ کرنے والے ہیں اور دوسرے وہ جو شکایت کرنے پر تنگ کرنے والوں کی پٹائی کرتے ہیں۔ سو بچپن میں وہ والدین سے کہہ کر بھائیوں اور محلے کے دوسرے بچوں کی پٹائی کرواتی ہیں اور بڑی ہو کر محلے کے لوفروں کو بوائے فرینڈ سے اور ضرورت پڑنے پر بوائے فرینڈ کو بھائیوں سے پٹواتی ہیں۔

عورت جب کام کرنے نکلتی ہے تو یہی اصول وہ دفتر میں بھی استعمال کرتی ہے۔

سب سے پہلے وہ طاقتور، یعنی باس، کو اپنا ساتھی بناتی ہے جیسے گھر میں باپ کو اور سکول میں استاد کو بنایا تھا اور پھر ان سارے مردوں کو جن پر اسے شک ہو کہ یہ کبھی نہ کبھی اس کے ساتھ بدتمیزی کر سکتے ہیں، پہلے سے ہی سبق سکھانے کے لیے انہیں کبھی پورا سال چھٹی نہیں ملنے دیتی۔ کبھی پورے مہینے کے لیے نائٹ شفٹ لگوا دیتی ہے، اور کبھی میٹنگ میں باس سے ذلیل کرواتی ہے۔

کام کرنے والی عورت کو یقین ہوتا ہے کہ ہر انسان، خاص طور پر مردوئے مرد، اسے تنگ کرنے کے لیے ہی اس دنیا میں آئے ہیں۔ سو وہ ان سب کو عورت کا مجرم سمجھتی ہے اور ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتی ہے۔ خواجہ سرا سے بھی وہ نالاں ہے کیونکہ وہ کٹنیاں عورت ہونے کا سوانگ بھرتی ہیں اور سارا وقت مردوں کو لبھاتی رہتی ہیں۔

اور یوں خواجہ سرا کو بھی امتیازی سلوک کی شکایت اور امتیاز کرنے کی وجہ مل جاتی ہے۔ اور خواجہ سرا جب کام کے معاملے میں امتیاز کرتا ہے تو پھر یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے عورت ہے یا مرد۔۔۔ اس شادی پر اس کی منڈلی نے ناچنا ہے یا اس گود بھرائی پر اس کے گروپ نے ویل لینی ہے تو پھر کوئی میراثن یا میراثی وہاں آ کر تو دکھائے۔ جس ٹریفک سگنل پر چار خواجہ سرا قبضہ جما لیں اسے سارے شہر کے بھکاریوں اور بھکارنوں کی انجمن ہٹوا سکتی ہے نہ ہی زنانہ یا مردانہ پولیس۔

خواجہ سراؤں کے کام کے ذکر سے یاد آیا کہ آج کل میں وہ آپ کے دروازے پر بھی پہنچنے والے ہیں، عیدی مانگنے۔ اب عیدی مانگنے والے مردوں یا عورتوں کے ساتھ آپ کیسا بھی سلوک کر لیں لیکن اگر آپ محلے میں اپنی عزت رکھنا چاہتے ہیں تو خواجہ سرا کو عیدی دیتے ہوئے ضرور امتیاز برتیں۔ آخر یہ اس کے کام کا معاملہ ہے


مسعود عالم اسلام آباد میں ایک مصنف ہیں اور صحافت کی تربیت دیتے ہیں۔

[email protected]

تبصرے (2) بند ہیں

ندیم صدیقی Aug 18, 2012 01:46am
اچھا ہے.
adam Aug 20, 2012 05:32am
تسی چھا گئے ہو :)