۔ — تصویر بشکریہ ایور نیو ریسی پیز

میری آدھی زندگی میں مجھے ایک جھوٹ سنایا گیا اور یہ تب تک سنایا گیا جب تک اس کا یقین نہ کرلیا۔ اب باقی کی زندگی، میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہی جھوٹ سب کو سنا رہا ہوں کہ ہاں جی عید خوشی کا تہوار ہے اور سال کا سب سے اچھا دن بھی ہے۔

لیکن اس سال عید کے تیسرے دن مجھے مایوسی کا احساس ہوا جب کسی نے ٹی وی پہ 'عید کی خوشیوں' کا ذکرشاید ایک ہزارویں بار کیا۔ (نہ جانے کیوں یہ جملہ اردُو میں جمع ہوجاتا ہے۔)

ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ خوشی کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا جنس کے ساتھ۔ ہم لوگ ان دونوں چیزوں کے بارے میں  نروس ہی رہتے ہیں۔ عام طور پہ دونوں پہ ہنستے ہیں اور نجی طور پہ دونوں کو تلاش کرتے ہیں۔ زیادہ ترہمیں اُسے پانے کی چاہ ہوتی ہے تا کہ وہ دونوں چیزیں دوسروں کو فراہم کردیں۔

میں نے سڑکوں اور گھروں کا مشاہدہ کیا۔ بہت ٹی وی بھی دیکھا لیکن ان سب میں، میں نے ایک مایوسی پائی خوش رہنے کے لیے۔ سب ایک دوسرے کوکہتے ہیں کہ مزے کرو؛ سب لطف اندوز ہونے کے طریقے تلاش کررہے ہیں اورکوئی بھی اپنی تلاش میں کامیاب نہیں ہوپارہا کیوں کہ اگرخوشی اُنہیں مل گئی ہوتی تو وہ اس بارے میں مسلسل بحث نہ کرتے۔

ہرسال کی طرح اس سال بھی عید پہ صرف ایک ہی قسم کی تفریح عوام کودستیاب ہے اور وہ ہے کھانا۔ لوگوں کے کھانے سے دلچسپی کے نتیجے میں ڈھیر سارا کھانا، جو نہایت مہنگا، گوشت، میٹھے اور غیرملکی معیار سے بھرپور ہوتا ہے، بہت زیادہ تعداد میں نظر آنے لگتا ہے۔

ایک آدمی بڑے فخر سے دوسروں کو اُس کے سامنے پڑی ہوئی چانپ کے بارے میں بتاتا ہے کہ 'دیکھو، مجھے چانپ پسند ہے اور کیوں کہ عید خوشی کا موقع ہے، اس لیے میں اسے مزے لے لے کر کھارہا ہوں'۔

یہ سچ ہے کہ اس کے بات کرنے کے طریقے سے ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے شاید ریہرسل کررکھی ہے لیکن پھر بھی اُس کے چہرے پر لطف صاف ظاہر تھا اور یہ کسی قومی ٹیلی وژن کے نیوز بلیٹن کے لیے بھی نہ تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ وہ سچ مچ مٹن چانپ کھا رہا تھا اور وہ اصل میں بہت خوش تھا۔ شاید وہ تو کسی اوردن بھی چانپیں کھانے میں اتنا ہی خوش ہوتا ہوگا۔

ایک اور خبر میں ٹی وی رپورٹر نے سیر پہ آئے لوگوں سے پوچھا تو سب نے جواب دیا کہ 'عید ہے، خوشی کا موقع ہے تو ہم مری یا پھر اس پارک، ساحلِ سمندر، ریستوران، میوزیم یا پھر مزار پہ آئے ہیں کھانا کھانے اور لطف اندوز ہونے کے لیے۔ جب کہ بچے اپنے جوابوں میں بڑوں سے زیادہ مسلسل رہے۔ خیبر پختون خواہ سے لے کرپختون خواہ تک (مطلب کہ وہ پختون رہائش جس کو کراچی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) ۔۔۔

ہاں بس ذرا گلگت بلتستان کو چھوڑ کر کیوں کہ وہاں کے لوگوں سے کسی نے بھی پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

ان بے چاروں کا وقت تو بہت ہی بُرا گزرا۔ اُن کے بیس لوگوں کو چند روز پہلے ہی مار دیا گیا تھا، صرف اس لیے کہ وہ اپنے شناختی کارڈ پر غلط معلومات لیے گھوم رہے تھے۔ میں اپنی بات سے ذرا ہٹ رہا ہوں۔

کیمرے کے سامنے کھڑے بچے کے پیچھے اور بھی بچے کھڑے تھے جو اُسے حسد کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ اُن سب کو نفرت ہو رہی تھی اُس بچے سے جسے کمیرے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی بات کرنے کا موقع ملا تھا۔

ان کو تو اُس ٹی وی چینل والے سے بھی نفرت ہورہی تھی کیوں کہ وہ اصلی ہنر کو نظر انداز کررہا تھا لیکن منہ پھیر کے چلے جانے کے بجائے وہ اُدھر ہی کھڑے رہے اوراُس خوش نصیب بچے کے سرکے پچھلے حصے کو گھورتے رہے۔

ان کے چہروں کے تاثرات، قاتلانہ ارادے اور غالب بوریت کے درمیان لٹکتے جارہے تھے۔ ظاہر ہے کہ اُن کو مزا تو آ نہیں رہا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اُن کو بچوں کی نمائندگی کے لیے نہیں چنا گیا تھا۔

سب سے زیادہ بہادر کوشش تو ٹی وی ٹاک شو کے میزبانوں کی تھی۔ وہ تو پورے تین دن لگے رہے۔ وہ جو پیش نہیں کر رہے تھے، وہ کسی ساتھی کے شو میں مہمان کے طور پر بیٹھے تھے۔

اگر میری گنتی صحیح  ہے تو وہ ہر لفظ کے بعد مسکراتے، ہر جملے کے بعد ہنستے اور ہر تین جملوں کے بعد اُن کے چہروں پر دھاڑتی خوشی کا تاثر نظر آتا۔ (ساحر لودھی کے لیے اعداد و شمار مندرجہ بالا اوسط کا دوگنا ہوگا) اور ان کے مہمان، ایک مشہور شخصیت جن کی زندگی کتنی اداس ہے کہ وہ عید کے دن بھی اسٹوڈیومیں بیٹھے ہیں اور وہی کہانیاں سنارہے ہیں جو اُنہوں نے پچھلے سال بھی سنائی تھی اور یہاں تک کہ اس سے بھی پچھلے سال سنائی تھی۔

جو شو کے میزبان ہیں اُنہوں نے اپنے شو سے پہلے کوئی اور شو دیکھا ہی نہ تھا۔ اسی لیے وہ اپنے مہمانوں کی ہر بات پر ہنستے ہیں۔ یہ کرتے وقت وہ اپنے ناظرین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بار بار عید کی خوشیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ہر شو پہ لوگوں کو کھاتا پیتا دکھایا جاتا ہے تاکہ وہ بھی بڑے پیمانے پر خود کے دماغ پرغلط اثر ڈالنے کی اس سالانہ رسم میں اپنی شرکت کا منظر پیش کرسکیں۔

جو میڈیا پہ نہ آسکے، اُنہوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ ہر موبائل فون استعمال کرنے والا انسان ہر ایک عید مبارک کے ایس ایم ایس کے بدلے تین عید مبارک کے ایس ایم ایس کرتا ہے۔

لوگ گھنٹوں لگاتے ہیں اپنا خاص عید مبارک کا ایس ایم ایس تحریر اور ڈیزائن کرنے میں لیکن پھر بھی سارے ہی ایس ایم ایس ایک جیسے ہوتے ہیں۔

دو سو سینتیس عید مبارک کے ایس ایم ایس، جو میں نے پڑھے تھے، ان کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پہ پہنچا کہ سب میں تقریبأ ایک ہی بات کہی گئی ہے۔ جیسے کہ 'عیدِ سعید کے مبارک موقع پر خدا آپ کو اپنی رحمت کی انتہا عطا کرے تاکہ آپ کے عزیز و اقارب آپ کے وجود سے ڈھیر ساری خوشیاں پائیں۔ آمین۔۔۔ مجھے اپنے دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔'

وہی خوشی کی تلاش، وہی سارے مکتوب الیہ کو دعائیں کہ وہ مزے لانے والے بنیں اور خدا پر یقین رکھیں کہ اگر اس عید پہ نہ سہی تو اگلی عید پر ضرور خوشی ہمارے گھر آئے گی۔

صرف ایک ہی ایس ایم ایس ذرا سا مختلف تھا: 'آئیے اپنے اختلافات سے ہٹ کر ایک خدا کے سامنے رکوع کریں اُس ہر چیز کے لیے جو ہمیں نصیب ہوئی ہے، ایک ملک جس پر ہم اپنی جان لُٹا سکیں' لیکن یہ ایس ایم ایس آئی ایس آئی کی عوامی آگاہی کی مہم زیادہ اور عید کی مبارکبادی کا ذرا کم نظر آتا تھا۔

ہاں۔۔۔ یہ سچ بھی ہے کہ عید پہ لوگوں کو سچ مچ مزہ آتا ہے مگر ذرا مختلف طریقوں سے۔ یہ لوگ وہ ہیں جوسال کی کسی بھی لمبی چھٹیوں کا بھرپور مزہ لیتے ہیں۔

آپ ان لوگوں کو خوش ہونے کے طریقوں پر لیکچر دیتے ہوئے نہیں پائیں گے۔ نہ ہی وہ ہجومِ عام کی عید کی مبارکباد میں ملیں گے، اور نہ ذبح کیے جانوروں  میں عید کی خوشیاں تلاشتے نظر آئیں گے۔

یہ عید کے بارے میں نہیں، ہمارے بارے میں ہے۔

عید، اپنی اصل شکل میں کسی بھی دوسرے مذہبی تہوار کی طرح بورنگ ہوتی ہے جس میں لوگوں نے اپنے تہواروں میں رنگ، روشنی، دیومالائیت اور گانا بجانا شامل کرلیا ہے۔ ہم نے تو بس اُدھر ہی پہلے سے طے شدہ بورنگ کو ہی اپنایا ہے۔ یہ ہم نے خود ہی انتخاب کیا ہے اپنے لیے۔

ایسے لوگ ہیں ہم لوگ۔۔۔ کام کرنے کی صلاحیت تو ہے نہیں، محنت کرنا تو بھول جائیں۔ اسی لیے ہم میں چھٹیوں کا مزہ لینے کی بھی صلاحیت نہیں ہے، چاہے وہ عید کی چھٹیاں ہی کیوں نہ ہوں۔

وہ کم عقل لوگ جو عید کی خوشیوں کی تبلیغ کرتے ہیں، وہ نہ پاکستانی مسلمانوں سے واقف ہیں اور نہ ہی اُن کے کام کرنے کے طریقے سے، اور نہ ہی ان دونوں کے بیچ کے تعلقات کا اُن کو پتا ہے۔


مسعود عالم اسلام آباد میں ایک مصنف ہیں اور صحافت کی تربیت دیتے ہیں -

[email protected]

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

جمیل حسین Aug 26, 2012 12:12pm
خوشیاں ایک اضطرابی عجلت کے ساتھ ڈھونڈنے والے اسے کبھی نہیں پاسکتے. تہواروں پر ہم خوش ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اب تو اس سلسلے میں اس عمل لی نمایش کا خاندانی اور سماجی دباؤ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ جو پرانے زمانوں میں‌رت جگوں کے باعث نہ حاصل ہو سکنے والی نیند کی ضرورت پوری کرنے کا لطف ہوتا تھا اس سے بھی جاتے رہے. ہر فرد کا اصرار ہوتا ہے کہ کہیں‌ اس کے عزیز خوش دکھایی دینے میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جاییں. صد افسوس!
نادیہ خان Aug 26, 2012 12:19pm
بدقسمتی سے ہم کوے ہیں جو چلے ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیے. ایک ہی گھر میں افراد کو جو نجی آزادی حاصل تھی وہ بھی ختم ہویی اور ماڈرن مغربی طرز زندگی میں جو ہر ایک کو نجی گوشہ میسر ہوتا ہے وہ بھی نہ ملا. دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی انتہا پسندی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے جو ہمرے آج کے خاندنی نظام کا خاصہ بن چکا ہے.
اقبال افغانی Aug 26, 2012 12:23pm
مسعود صاحب! اس قدر مایوسی اور یاسیت بھی کیا. کم از کم بچے تو خوش ہوتے ہیں اور انہیں ہونا بھی چاہیے کہ وہ پورا ایک مہینہ رزذہ دار بڑوں کو جس جلال کے عالم میں پاتے ہیں، کویی بھی اس صورت حال کے خاتمے پر خوش ہوگا:)
انور امجد Aug 30, 2012 05:17am
جو لوگ خوش رہتے ہیں ان کو خوشیاں ڈھونڈنے کا ہنر آتا ہے۔ یونانی عربپتی اوناسس کی اکلوتی وارث بیٹی اپنے آپ کو بد قسمت ترین لڑکی سمجھتی تھی۔ وہ جوانی میں سونے کی گولیوں کے اثرات سےمر گئ۔ اس کو کس چیز کی کمی تھی؟ اصل میں جو لوگ قناعت کرتے ہیں ہر حال میں خوش رہتے ھیں۔ ویسے عید کی خوشی ان کو زیادہ ہوتی ہے جو روزے رکھتے ھیں۔