فائل فوٹو --.

کیا کسی جمہوری ریاست کے شہری اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لے سکتے ہیں کیا وہ اپنے انتظامی امور کو بہتر طور پر چلاسکتے ہیں نہ کہ وقتا فوقتااپنے حکمرانوں کو منتخب کریں یا کبھی کبھار اپنی قوت کو استعمال کرکے حکومت کو تبدیل کردیں؟

اسکا مثبت جواب ڈیولپمنٹ سولیوشن فورم میں ملا جو حال ہی میں بنکاک میں بہت ہی منظم طور پر منعقد کیا گیا تھا جسکا اہتمام ترقیاتی اور اکیڈمک اداروں کے کنسورشیم نے آکسفام کی سربراہی میں کیاتھا- یہاں ایشیائی ممالک کی کامیاب شہری سرگرمیوں کی آٹھ مثالیں پیش کی گیئں جو پاکستان کے ان فعال شہریوں کے لئے دلچسپی کا با عث ہونگی جو غیر ریاستی وسائل سے ترقی کے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں.

شہروں میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے دو اقدامات تو اپنی کامیابی کے لئے وہاں کے میئروں کے مرہون منت ہیں جنہوں نے ترقیاتی کاموں کے لئے وہاں کی مقامی آبادیوں کو حرکت میں لانے کی کوشش کی -

ان میں سے ایک فلپائن کا شہر لی بون ہے- یہاں کی میئر مسز اگنس ڈائی کوکو ہیں جو متواتر تین بار اپنے علاقے کی میئر منتخب ہو چکی ہیں- انہوں نے متعدد پروجکٹس کی ابتدا کی جن کا تعلق خاص طور پر تعلیم اور صحت سے تھا تاکہ شہر کے چھیاسٹھ ہزارتین سو پینتالس شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں ان کی نصف سے زیادہ تعداد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی .

ان کی کوششیں نمایاں کامیابیوں سے ہمکنار ہوئیں کیونکہ ایک تو انہوں نے وہاں کی آبادیوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا، دوسرے انہوں نے متعلقه افسران کا اعتماد حاصل کر لیا تھا اور مقامی اور قومی ایجنسیوں نیز این جی اوز کے ساتھ شراکت داری قائم کی تھی- اس شہر کی کامیابی کی داستان کو خالصتا ترقی کا ایک مثالی نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں کی میئر نے لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندوں کو" ترقیاتی منیجرز" تصور کیا تھا نہ کہ محض سیاسی مشننری کا ایک حصہ-

دوسری مثال تھائی لینڈ کی میونسپلٹی کوہ کھا ٹامبون کی ہے- یہاں بھی مس پنپک رتناکمفو، متواتر تین بار میئر منتخب ہو چکی ہیں- وہ ترقی کی سیاسی راہ پر کامل یقیں رکھتی ہیں- انہوں نے پولیٹکل سائنس اور لوکل گورنمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور ان کا نظریہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ کو جواب دہ ہونا چاہئے نیز یہ کہ سول سوسایٹی کو مستحکم بنا کر ہی شہریوں کا فعال تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے.

انہوں نے چار نکاتی منصوبہ بنایا؛

1) زندگی سے بھرپور شہر. 2) عوامی صلاحیت کی تشکیل. 3) شراکت داری کی حوصلہ افزائی اور سیکھنے کا عمل. 4) خودمختار اور آزاد کمیونٹی .

لیکن مذکورہ بالا مثالوں میں لوکل گورنمنٹ کا نظام پہلے سے موجود ہونا ضروری ہے، باقاعدہ انتخابات ہوں آعلیٰ انتظامی افسران کا تعاون حاصل ہو اور ایک حساس شہری آبادی کی موجودگی لازم ہے-

اگر ان شرایط کو پورا کیا جاۓ اورعوام بہتر علم اور نظر رکھنے والے نمائندوں کو منتخب کریں تو پاکستان میں بھی اس قسم کے تجربے کئےجا سکتے ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ پہلے سےموجود وسایل کو عام ترقی کے لئے موثر طور پر استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں-

شہریوں کی جانب سے پہل کاری کرنے کی تیسری مثال کمبوڈیا کی ہے جن کا مقصود نظر یہ تھا کہ پارلیمنٹ اورملازمتوں میں عورتوں کا حصہ بڑھایا جاۓ- مقامی این جی اوز کا ایک قومی اتحاد جو کمیٹی ٹو پروموٹ ویمن ان پالیٹکس (سیاست میں عورتوں کے حصہ کو فروغ دینے کی کمیٹی) کے نام سے موسوم ہے، اپنے قیام کے سات برسوں میں قابل لحاظ کامیابی حاصل کر چکی ہے-

پاکستانیوں کے لئے اس کمیٹی کی کامیابی جانی پہچانی تصور کی جا سکتی ہے کیونکہ سیاست میں عورتوں کے حصہ کو فروغ دینے کا عمل ہمارے این جی اوز کی نمایاں ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے-

ضمنا، یہ کہ کمبوڈیا جوماضی میں ہلاکتوں کی سرزمین خیال کیا جاتا تھا اتنا پسماندہ نہیں ہے جیسا کہ شاید اکثر پاکستانی سمجھتے ہوں- عورتیں وہاں کی آبادی کا 51.4 فی صد حصہ ہیں- انھیں قومی اسمبلی میں انیس فی صد نشستیں، سینیٹ میں 14.6 فی صد، وزارتوں میں 7.7 فی صد اور سکریٹری آف اسٹیٹ کے عھدوں میں 8.2 فی صد نمائندگی حاصل ہے-

بنگلور کی جوناگڑھ سنٹر فارسٹیزنشپ اینڈ ڈیموکریسی کی سرگرمیاں بھی قابل غور ہیں. یہ تنظیم شہری آبادی کے معیار کو بلند کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے یہ مالیاتی امور کی مستند دستاویزات تیار کرتی ہے، بدعنوانیوں کے خلاف مہمیں چلاتی ہے، شہریوں کی شراکت داری کو فروغ دینے کے لئے کام کرتی ہے، اور شہریت کے معیار کو جانچنے کے لئے اشارئے تیار کرتی ہے.

اسی طرح جنوبی تھائی لینڈ کی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون یعائنہ سلامہ ہیں جو امن و امان کے قیام کے لئے جہاد کر رہی ہیں- یہاں گزشتہ آٹھ برسوں میں نسل کشی کے فسادات میں ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے یعائنہ سلامہ ایک سیدھی سادھی گھریلو خاتون ہیں. جب انکا لڑکا فسادات کی نظر ہو گیا تو وہ بیگناہ عوام کی مدافعت میں سر گرم عمل ہو گئیں اور امن کی جدوجہد میں ایک طاقتور علامت بن گیئں.

اس فورم کے منتظمین نے شاید وادی کشمیرکی پروینہ کا نام سنا ہو. انڈونیشیا سے موصول ہونے والی رپورٹ ایک کثیرالجہتی سماجی ترقی کے پروجیکٹ کے بارے میں تھی جسے امداد دینے والی تنظیموں (ڈونرز) نے بھاری مدد دی تھی- پاکستانی ایسی مثالوں سے بخوبی وقف ہیں-

شہریوں کی پہل کاری سے لائی جانے والی آٹھ تبدیلیوں کی مثالوں میں سے دو مثالیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ایک تو اس لئے کہ وہ منفرد نوعیت کی ہیں اور دوسرے یہ کہ طرز حکمرانی پر ان کے براہ راست اثرات کے امکانات نمایاں حثییت کے حامل ہیں-

ہندوستان کے دو ضلعوں میں، ایک تو مدھیہ پردیش میں اور دوسرے اڑیسہ میں سمادھان کے نام سے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا- (کہا جاتا ہے کہ اسی قسم کا پروجیکٹ کینیا میں بھی شروع کیا گیا) ضلع کے کلکٹر، سول سوسایٹی کی ایک ممتاز تنظیم اورایک مقامی میڈیا کے مابین شراکت داری قائم کی گئی-

اس پروجیکٹ کےتحت شہریوں کے لئےانٹرنٹ پر مبنی ایک پلیٹ فارم فراہم کیا گیا جہاں وہ قومی اورریاستی اسکیموں میں اپنےواجبات کی ادائگی کیلئے براہ راست درخواست دے سکتے ہیں اوراس پر کارروائی کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں.

اس پروجکٹ کا طریقه عمل کچھ اس طرح ہے- سمادھان سسٹم کے تحت اگر کسی شہری کے واجبات کی ادائگی میں تاخیر واقع ہو تو وہ شکایت درج کرانے کے لئے ٹیلیفون کر سکتا ہے، ایس ایم ایس بھیج سکتا ہے یا پھر ویب پر رابطہ قائم کر سکتا ہے- مقامی افسران شکایتوں کا جائزہ لیتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ کیا کارروائی ہو رہی ہے-

شکایت دہندہ ایس ایم ایس یا ویب کے ذریعہ رابطے میں رہتا ہے- جب شکایت کا ازالہ ہو جاتا ہے تو شکایت دہندہ کو اس کی اطلاع دیدی جاتی ہے- یہ کہا جاتا ہے کہ سمادھان کےذریعہ شہریوں کو یہ اختیارحاصل ہو گیا ہے کہ وہ بلا کسی اضافی اخراجات یا پریشانی اپنی شکایات حکومت کے پاس پہنچاییں- لیکن عوام کے اختیار کا فایدہ محض یہی نہیں ہے کہ اخراجات میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ ان جگہوں تک ان کی پہنچ ہوجاتی ہے جہاں ان کی شکایتیں رفع ہو سکتی ہیں-

ایک اور پروجیکٹ کا تعلق ویتنام سے ہے جو پروونشیل گورننس اینڈ پبلک ایڈمنسٹریشن پرفارمنس انڈکس (پی اے پی آئ) کے نام سے موسوم ہے- یہ یو این ڈی پی، ویتنام فادر فرنٹ اور ایک این جی او کا مشترکہ پروجیکٹ ہے- پی اے پی آئ ملک کے اصلاحی ماسٹرپلان کی، جو ایک حکومتی پروگرام ہے، نگرانی کرتی ہے-

اس پروجیکٹ کے تحت شہریوں کے نقطہ نظر سے صوبائی گورننس (تریسٹھ  صوبے) اور پبلک ایڈمنسٹریشن کی جانچ پڑتال چھ مدوں کے تحت کی جاتی ہے -

1. مقامی سطح پر شرکت . 2. شفّافیت . 3.  احتساب . 4.  بدعنوانیوں پر کنٹرول . 5. انتظام عامہ کا طریقه کار. 6. خدمات عامہ کے امور.

ان مدوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے- مثلا خدمات عامہ کے امور کو چار شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے

1. صحت عامہ ، 2. عام ابتدائی تعلیم ، 3. انفرااسٹرکچر 4. امن عامہ

ہر شعبہ کو مزید تین یا سات ذیلی شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے- آبادی کے ایک بڑے حصہ کی جانب سے ملنے والے ردعمل کی بنیاد پر اشارئے ترتیب دئے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ شہریوں کی جامع نمایندگی یقینی بنائی جاۓ ان پہل کاریوں کے نتیجے میں عام شہریوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوسکتا ہے اور روزمرہ کے معاملات ان کے کنٹرول میں رہتے ہیں - لیکن میرا خیال ہے کہ پاکستان کا اورنگی پایلٹ پروجکٹ اس سے بہترہے-

تاہم کامیابی کی یہ ساری مثالیں ریاستوں کی وضع کردہ پالیسیوں کے متصل چلائی گئیں اور ان کی کامیابی کا انحصار قومی حکومتوں کی رضا و رغبت اور بین الاقوامی امداد سے ہے- اس قسم کی مدد ایسے شہری پروجیکٹوں کو حاصل نہیں ہوسکتی جو بین الاقوامی سطح پر اور اندرون ملک ارباب اختیار کے بناۓ ہوۓ ترقیاتی منصوبوں کو چیلنج کرتے ہوں-

یہ حقیقت ہے کہ مقامی سطحوں پرعوامی شکایات کے ازالے سے بنیادی تبدیلی لانے کی عوامی تحریک کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے -- کیونکہ عوامی تحریک کا مقصد ہر قسم کی نا انصافیوں اور استحصال کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے- لیکن ایسے معاشروں میں جہاں ایک نیا اور مساویانہ نظام قائم کرنے کے امکانات موجود نہ ہوں وہاں عوام کے مصایب کو کم کرنے کی کوششوں کو لاحاصل قرار نہیں دیا جا سکتا .

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں