Photo by Madeeha Syed (The photo is a re-enactment using actors)
(فوٹو -- ملیحہ سید (یہ فوٹو اداکاروں کے ساتھ لی گئی ہے --.

سن اُنیس سو اُناسی میں ضیاء الحق نے ملک میں 'نفاذ اسلام' کا نام لے کرعوام پر قوانین کی ایسی لاٹھی برسائی جو خواتین اور اقلیتوں کے لیے امتیاز پر مبنی تھے۔

اُن کا جواز نہایت سادہ تھا: وہ لوگوں پر قابو پانا چاہتے تھے اور پہلے سے دبے اور خاموش لوگوں کو مزید اپنا محکوم بنانے کے لیے یہ سہل اور بہتر راستا تھا؟

ضیاء کے ان قوانین کو تیس سال ہونے کو آئے لیکن ان میں ترمیم کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی یہ پہاڑ کی نہ سر ہونے والی چوٹی جیسا مشکل ہدف نظر آتے ہیں۔

ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند مثبت تبدیلی تحفظِ خاتون قانون یا وومن پروٹیکشن ایکٹ، دو ہزار چھ کی صورت میں آئی۔

اس قانون کے تحت پاکستان کی پُر ہجوم جیلوں سے ہزاروں ایسی عورتوں کو رہائی نصیب ہوئی، جنہیں زنا کے جھوٹے الزام میں قید کاٹنا پڑ رہی تھی۔

اس کے بعد خواتین کے موافق متعدد قوانین متعارف کرائے گئے مگر اس کے باوجود بنیادی سوال اب تک باقی ہے: کیا خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کا اثر عام خواتین کی زندگیوں پر بھی پڑا ہے؟

کسی حد تک اس کا جواب ہاں میں ہے مگر پھر بھی ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ہمارے سماج میں، خواتین پر گھریلو تشدد کے بڑھتے واقعات کے باعث اس بات کی اشد ضرورت ہے ڈومیسٹک وائلنس بِل کو جلد از جلد صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرکے منظور کرایا جائے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اب صوبوں کو جو اختیارات وفاق سے ملے ہیں، یہ بھی ان میں سے ہی ایک ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت خواتین کو ہرجگہ گھریلو تشدد کا سامنا ہے مگرپھر بھی روک تھام کے قانون کو منظوری کے لیے صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرنے میں غیر ضروری تاخیر کی جارہی ہے۔ جس کا سبب صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی طرف سے قانونی بل میں قرار دیے گئے جرائم کو اسلام کے مطابق کرنا ہے۔

یہی نہیں، حتیٰ کہ کم عمری کی شادی رکوانے کا قانون 'چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، سن اُنیّسو اُنتیس بھی نہایت ڈھیلے ڈھالے طور پر نافذ ہے۔

شرکت گاہ سے منسلک ڈاکٹر تابندہ سروش کہتی ہیں کہ 'اس وقت بھی ملک میں ہونے والی شادیوں کا کم ازکم تیس فیصد چائلد میرج پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی اس رجحان کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے گئے، وہ انتہائی ناکافی ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ کم عمری کی شادیاں نہ صرف اُن کا بچپن تباہ کردیتی ہے بلکہ اس سے بچوں کی شرح پیدائش میں اضافے کے سبب عورت کی تولیدی صحت کے لیے بھی سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

تناؤ سے بھرے اس ملک کے ہر شعبے کی جدو جہد میں خواتین شامل ہیں لیکن اس کے باوجود وہ انصاف کی فراہمی کے لیے قابلِ ترجیح نہیں سمجھی جاتیں۔

صنفی امتیاز میں پاکستان اس وقت بھی آگے ہے۔ صنفی رویوں کے بارے میں شامل اقوامِ متحدہ کے جائزے میں پاکستان مزید پانچ درجے نیچے گرا اور اب وہ تنزلی کے ایک سو چونتیسویں نمبر پر ہے۔

حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم ماہرِ قانون رابعہ باجوہ خواتین کے حوالے سے قانون سازی کو دکھاوا قرار دیتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ 'یہاں قوانین موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ان کے عدم نفاذ کا ہے۔'

عورت فاؤنڈیشن سے منسلک رحمان مہناز حالیہ قانون سازی کو اہم قرار دیتی ہیں تاہم ان کی رائے میں 'پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو نہایت مضبوط کردار ادا کرنا پڑے گا۔'

وہ کہتی ہیں کہ یہ قوانین صرف اسی صورت میں مکمل طور پر کامیاب ہوسکتے ہیں جب پراسیکیوٹر، پولیس، جج، صحتِ عامہ اور تعلیمی ماہرین اس پر موثر طور پر عمل کریں۔

'رائے عامّہ کی بیداری نہایت اہم ہے۔ اس وقت بھی مرد ان معاملات کو اہم نہیں گردانتے۔ بلاشبہ قانون سازی نہایت اہم ہے لیکن مردوں کا مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی مرد معاشرے کے لیے ضروری ہے وہ آج کی گلوبلائزیشن اور معاشی حقیقت کو تسلیم کریں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'خواتین کے قدم باہر نکل چکے اور وہ آگے بڑھتی جائیں گی۔ اب سوال ان کو روکنے کا نہیں ہے۔ ہمیں تمام امتیازی قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا۔'

خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد 'الائنس اگینسٹ سیکسوئیل ہراسمنٹ' کی فوزیہ سعید کہتی ہیں کہ 'آزادانہ طور پر اچھی اور اعلیٰ  تعلیم حاصل کرنا بھی ان کے لیے بہت مشکل ہے۔ اگرچہ خواتین کا احترام اور ان سے متعلق مسائل بہت سادہ نوعیت کے ہیں مگر پھر بھی وہ ان معاملات پر اکھٹے، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے۔'

فوزیہ نے بتایا کہ بعض اوقات انہوں نے سینئر افسران تک کو بھی خواتین کے مسائل کے بارے میں طنز کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے دیکھا ہے۔ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے یا ان پر زیادتی کے معاملات پر تو کئی یہاں تک بھی کہتے پائے گئے کہ اس میں اصل قصور خود عورت کا ہے۔ خواتین جس طرح کے لباس پہن کر باہر نکلتی ہیں اس سے تو یہی ہونا تھا۔

پاکستانی معاشرے میں خواتین کے بارے میں مردوں کی سوچ صدیوں پرانے خطوط پر استوار ہے۔ اگر کسی عورت کو پیٹا جائے یا اس کے ساتھ زیادتی ہو تب بھی قصور بے چاری عورت کا ہی نکلتا ہے۔

فوزیہ سعید نے کام کے مقامات پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے قانونی بل پر سیاستدانوں اور عوام کی رائے ہموار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے قابلِ قدر تحقیق بھی کی اور لوگوں کو اس جانب متوجہ کرنے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔

ان کی تنظیم نے  نجی شعبے، جیسا کہ چیمبرز آف کامرس طرز کی متعدد تنظیموں کے ساتھ مل کر سول سوسائٹی کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی افسران کےبجائے نجی شعبے کے ساتھ کام کرنا نسبتاً  زیادہ آسان ہے۔

خواتین کے موافق قانون اس وقت ہی بامعنیٰ تبدیلی لاسکتے ہیں جب انہیں مکمل طور پر سختی کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ ایسا موثر قانونی نفاذ جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے، پولیس اور عدلیہ سب صنفی انصاف کو یقینی بنانے پر یقین رکھتے ہوں۔ ایسا ہو تب ہی ایک عام عورت کی زندگی ان بنائے گئے قوانین سے انصاف حاصل کر پائے گی۔َِ


 ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (0) بند ہیں