تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری جن کی سات برس بعد کینیڈا سے اچانک اور ایک نعرے کے ساتھ واپسی نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے -- فوٹو رائٹرز
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری جن کی سات برس بعد کینیڈا سے اچانک اور ایک نعرے کے ساتھ واپسی نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے -- فوٹو رائٹرز

جہاں چند ایک پارٹیوں کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف ایک مشترکہ موقف اختیار کرینگے جو واضح طورپر جمہوریت کی کشتی ڈبونے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہاں انتخابی نظام کے حامیوں کیلئے بھی اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کے معاملات کو سدھارنے کی کوشش کریں-

اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ پاکستان میں جمہوریت کے کاز کو اتنا ہی نقصان اس کے حامیوں نے پہنچایا ہے (اگرزیادہ نہیں تو) جتنا کہ اس کے دشمنوں نے- ایک ایسے معاشرے میں جمہوری اداروں کا قیام جہاں عدم مساوات اور طبقاتی تفریق کی بے شمار مثالیں نظر آتی ہیں، جو جہالت اور کٹر مذہبی عقائد کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ایک حوصلہ شکن فریضہ تھا جو اس ملک کے بانیوں کے سامنے آزادی کے وقت درپیش تھا-

اس حقیقت کی بنا پر صورت حال اور بھی بدترہوگئی کہ اقتدارکی باگ ڈورجس طبقہ کے حوالے کی گئی اسکا جمہوری اداروں کو چلانے کا تجربہ انتہائی ناقص تھا-

سب سے پہلے تو یہ کہ جس پارٹی نے اپنے نوآبادیاتی حکمرانوں سے اقتدار ورثے میں حاصل کیا نہ صرف یہ کہ خود اس کے اندر فیصلہ کرنے کی جمہوری روایات موجود نہیں تھیں، نہ صرف یہ کہ اس کا اپنا ڈھانچہ بھی جمہوری نہیں تھا، ماسوا اسکے کہ کسی حد تک اصول وضوابط کا رسماً اہتمام کر لیا جاتا تھا- افرادی قوت کے جو وسائل موجود تھے ان میں اتنی اہلیت نہ تھی کہ وہ جمہوری نظام سیاست تشکیل دینے کی براہ راست کوشش کرتے-

نتیجہ یہ نکلا کہ روز اول سے ہی جب جب حکمرانوں کو ایک نئی ریاست کی بنیادیں رکھنے کی راہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے جمہوری اصولوں پر مفاہمت اور سمجھوتہ کرنے کا آسان راستہ اپنا لیا- یہ حکمران جس قلیل سیاسی اثاثہ کے حامل تھے وہ آزادی کے چند ابتدائی برسوں کے اندر ہی ختم ہو گیا-

1952کے بعد سے ہی پروٹو-جمہوری نظام طالع آزما افراد اور ان کی ٹولیوں کے رحم و کرم پر چل رہا تھا- عوام کو باقاعدہ وقفوں وقفوں سے آواز دی جاتی تھی کہ وہ مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اقتدار اپنے نمائندوں کے حوالے کریں لیکن کوئی بھی منتخب حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہ اتری-

اب عوام کی تقدیر یہی بن چکی ہے کہ وہ ایک ناتواں چکر کے خاموش تماشائی بن جائیں جس میں آمر حکمران جمہوریت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنی باری آنے پر جمہوریت پسند آمر حکمرانوں کو نکا ل پھینکتے ہیں- جمہوریت پسندوں اور آمروں کے درمیان طویل عرصے تک اسی طرح ہوتی آنکھ مچولی نے جمہوریت میں عوام کے یقین واعتماد کو قا بل لحاظ ٹھیس پہنچائی ہے- ایک طرف تو مطلق العنان قوتوں نے جمہوریت کو اپنا نشانہ بنایا اوراسے عوام کی ذہا نت اوریقیں و اعتماد کیلئے ناموزوں قراردیا اور دوسری طرف خود جمہوریت پسندوں نے اپنی نااہلیت، بدعنوانی اور عوامی خوشحالی کے کاموں سے ناطہ توڑ کراپنی ناقدری کا سامان کیا-

جن لوگوں نے باہر سے جمہوری عمل کی حمایت کی، یعنی ان لوگوں نے جنہوں نے نہ تو انتخابات میں اور نہ ہی فعال سیاست میں حصّہ لیا، مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں سیاسی پارٹیوں پر کم تنقید کی- لیکن اب جبکہ ہم ایک نازک ترین لمحے پر پہنچ رہے ہیں، سیاستدانوں کی غلطیوں سے نہ صرف نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ من حیث القوم عوام کی سالمیت کو بھی خطرہ لاحق ہے اس لئے بہتر ہے کہ سیاسی جماعتیں کم بولنے کی عادت ڈالیں اور عوام کی بات کوزیادہ  سے زیادہ سنیں- نمائندہ حکومت میں عوام کے یقیں و اعتماد کو بحال کرنے کیلئے انہیں بڑی جانفشانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے-

آج جمہوریت پسند جماعتوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ بحث و مباحثے کے ذریعہ عوام کو بتائیں کہ موجودہ بحران سے کیونکر نکلا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے مخالفین نے طلسماتی نسخے تقسیم کرنے شروع کر دئے ہیں-

انھیں عوام کو بتانا ہوگا کہ وہ کس طرح غربت و افلاس، بے روزگاری، دکھ بیماریوں اور جہالت کا مقابلہ کرینگے، کسطرح وہ کسانوں کی اس بھوک کا مداوا کرینگے جو زمین کیلئے ترس رہے ہیں، انھیں عورتوں اور اقلیتوں کو یقیں دلانا ہوگا کہ شہریوں کی حثییت سے وہ برابر کے درجے کے حقدار ہیں- انھیں بتانا ہوگا کہ وہ ہر بچے کے اس حق کا احترام کرتے ہیں کہ اسے تعلیم پانے کا حق حاصل ہے، اسے خود آگہی کا حق حاصل ہے اور ان سب سے بڑھکر تو یہ کہ وہ کس طرح ہر شہری کو عقیدے کی آزادی، تمام بنیادی حقوق، جان کے تحفظ اور آزادی کی ضمانت کو یقینی بنائینگے-

اب جبکہ چند ماہ کا ہی عرصہ رہ گیا ہے کہ عوام کو ووٹ دینے کی دعوت دی جائیگی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ عوام کے سامنے اپنے اپنے منشور پیش کریں، ایسے ہدائف پیش کریں جنھیں پورا کیا جا سکتا ہو اور ایسے وعدے کریں جنھیں ایک مختصر سی مدت میں پورا کیا جا سکتا ہو- ورنہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ میدان ان پائیڈ پایپروں کے ہاتھ ہوگا جو انقلاب کے نعرے لگارہے ہیں، جو اسکے مفہوم سے بھی لاعلم ہیں اور جنھیں اس کا کچھ اندازہ نہیں کہ اسکا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے-

علاوہ ازیں، جمہوریت پسند جماعتوں کو چاہئے کہ وہ انتخابی مقابلے کیلئے نہ صرف اپنی صفوں کو درست کریں بلکہ آپس میں بھی انتخابی حکمت عملی تیار کریں تاکہ انتخابی عمل اور اسکے نتائج پر عوام کا یقیں و اعتماد بحال ہو-

مثلا، انہیں متحد ہوکر یہ یقین دہانی حاصل کرنی ہوگی کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت واقع ہوں- صوبائی اسمبلیوں کی مدت مختلف اوقات پر ختم ہونے کے نتیجے میں جو مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہ ایسا نہیں ہے جو حل نہ ہو سکے- اگر مختلف صوبوں میں برسراقتدار سیاسی جماعتیں اس بات کو سمجھ لیں کہ 1977 اور 1988 کے متذبذب انتخابات کے نتیجے میں جو نتائج نکلے وہ ضرررساں تھے تو وہ اس سمجھوتے پر پہنچ سکتے ہیں کہ تمام صوبائی اسمبلیوں کو بیک وقت تحلیل کیا جائے اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے تازہ انتخابات بھی ایک ہی تاریخ پر منعقد ہوں-

ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ یہ جماعتیں متفقہ طور پر ایسی قانون سازی کریں جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں اضافہ ہو اور وہ منصفانہ انتخابات کی ضمانت دے سکے- ای سی پی کو یہ اختیار ملنا چاہئے کہ وہ تعیناتی اور تبادلے کو منسوخ کر سکے اور گروہوں/ افراد کو دئے جانے والے ایسے معاشی محرکات کی تنسیخ کر سکے جس کا مقصد ووٹ-بینک حاصل کرنا ہو-

انتخابات کے دن ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا مسئلہ خاصہ متنازعہ بن چکا ہے- ای سی پی سے بہرصورت توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ یہ کام انجام دےسکتا ہے- سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ای سی پی کے مشورے سے کوئی متبادل تلاش کریں-

سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے میں ایک اوراہم مسئلہ شامل ہونا بیحد ضروری ہے اور وہ ہے انتخابی امورمیں خواتین کی شکایتوں کا ازالہ- جیسے کہ  کسی حلقہء انتخاب میں جہاں خواتین ووٹروں کی تعداد دس فی صد سے کم ہو، انتخاب نہ کروانے کی تجویزسے جائز اختلاف- پولنگ میں خواتین کی آزادانہ اور مکمل شرکت منصفانہ انتخابات کی شرط اولین ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا-

سیاسی پارٹیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے امیدوار اور کارکن عورتوں کے  ووٹ ڈالنے کی را ہ میں رکاوٹ نہ بنیں- اس بات کو یقینی بنانے کیلئے انھیں چاہئے کہ وہ کم از کم چند خواتین امیدواروں کو تمام نشستوں پر کھڑا کریں-

سیاسی پارٹیاں جمہوریت پر عوام کے یقیں کو اس طرح بحال کرسکتی ہیں کہ ان کے امیدواروں کی فہرستیں ایک کثیر النوع معاشرے کی عکاس ہوں-

یعنی ان کے امیدواروں میں محنت کش عوام ، اساتذہ ، سماجی کارکن وغیرہ وغیرہ شامل ہوں-

اقلیتیں بھی چند مراعات کی طالب ہیں. جو انھیں بآسانی دی جا سکتی ہیں-

عیسائیوں کا مطا لبہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مخصوس نشستوں میں اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت مختلف جغرافیائی حلقوں کا خیال رکھیں- ہندو برادری چاہتی ہے کہ اس کے مختلف 'نیچی ذات' کے اراکین کو بھی پیش نظر رکھا جائے- احمدیوں کو نہ توکوئی امید ہے اورنہ ہی انکا کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے- اب جبکہ' اقلیتوں' کی نشستوں کا کوٹہ بڑھایا جا رہا ہے ان کی عورتیں بھی چاہتی ہیں کہ انہیں بھی نامزد کیا جائے-

اجمالی طور پرایک جملے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت پسندوں کے سامنے ایک چیلنج یہ ہے کہ وہ جمہوریت کی عمارت کو تکثیریت (پلیورلسٹ) کی ٹھوس بنیاد فراہم کریں- ایک ایسا نظام جس میں سب شامل ہوں، ان خطرناک منصوبوں کے برعکس جو دوسروں کو خارج کردینے کے درپے ہے- کیا وہ اس چیلنج کو قبول کر نے کیلئے تیار ہیں؟


ترجمہ .      سیدہ صالحہ .

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Qazi Hassan Jan 16, 2013 06:33pm
PPP - Democracy means rule by the leftovers of British raj i.e. Jageerdars, Waderas, Sardars etc. PML-N - Democracy means rule by the Sarmayadars ANP - Democracy means a share for us in the loot of Jageerdars and Sarmayadars JI - Democracy means Martial Law that gives us guns and money for Jihad as we interpret