اے پی پی فوٹو
اے پی پی فوٹو

پاکستانی ریاست کو تاریک گلی میں دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے اور ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ کٹر پن اس پر حملہ آور ہوچکے۔ کوئی نہیں جانتا کل کیا ہوگا، جہاں تک عام لوگوں کی بات ہے تو انہیں کسی اچھے کی کوئی توقع نہیں۔

کچھ واضح نہیں کہ جنرل ضیا الحق کی جمہوریت دشمنی کی میراث لے کر، اُس کی پاسداری کرنے والے منافق عالمِ دین کیا کچھ لوٹنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اگر منتخب حکومت کے نمائندوں پر یونہی گند اچھالنے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ پاکستان کے لیے کوئی اچھا رجحان نہ ہوگا۔

اسلام آباد پر چڑھائی اور کوئٹہ میں ہزارہ شیعوں کا قتل، ایک ہی سکّے کے دو مختلف رُخ ہیں۔ اس ضمن میں، جیسا کہ بلوچستان کیس کی صورت میں ہوا، تیزی سے جو حل تلاش کیے گئے یا جن کی کوشش کی جارہی ہے، ان کے ثمرات نکلنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

کوئٹہ میں ہزارہ شیعوں کے کئی روزہ احتجاج کے بعد، بلوچستان حکومت کی برطرفی کا فیصلہ وفاقی حکومت کی شتر مرغ پالیسی کے سبب امکانی تھا۔

ہزارہ شیعہ سن اُنیسو ننانوے سے ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنتے چلے جارہے ہیں، جس میں سن دو ہزار تین سے تیزی آچکی ہے۔

ٹارگیٹ کلنگ کی اس دوسری کٹیگری میں چھ اگست، سن دو ہزار تین سے لے کر بیس ستمبر، دو ہزار گیارہ تک، کم ازکم چوبیس واقعات ہوئے۔ ان میں سے چار ایسے تھے جن میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چھبیس سے تریسٹھ کے درمیان رہی۔

گذشتہ سے پیوستہ جمعرات کو ہونے والے سانحے سے قبل تک ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد تریسٹھ رہی تھی، جو تین ستمبر سن دو ہزار دس کو کوئٹہ میں یوم القدس کی ریلی پر خودکش حملے کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ حملہ آوروں کی شناخت کوئی راز نہیں۔ کم ازکم ان کی شناخت شدت پسند مسلح دستے کے طور پر ہے مگر ان سب کے باوجود ہلاکتوں کے زیادہ تر واقعات کے مجرم کبھی پکڑے نہ جاسکے۔

انتظامیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ہزارہ شیعوں کے اعلانیہ قتلِ عام کے پیچھے کم ازکم ایک ایسی تنظیم ہے جسے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے سبب کالعدم قرار دیا جاچکا ہے۔

اگرچہ شیعوں پر حملے کے چند ذمہ داروں کو گرفتار کیا گیا تھا، سزائیں بھی سنائی گئی تھیں مگر ان بدنام ترین مجرموں کو پھانسی کون دیتا۔ آخر انہیں سخت ترین حفاظتی انتظامات کے باوجود جیل سے فرار کا موقع دیا گیا، جس سے ہزارہ شیعوں کو پیغام ملا کہ انتظامیہ قاتلوں کی پشت پناہی کررہی ہے، ورنہ ساز باز کے بغیر یہ کیسے ممکن تھا۔

مقامی انتظامیہ پر عدم اعتماد اور صوبائی حکومت کی جانب سے ان کے تحفظ میں ناکامی پر ہزارہ شیعوں نے اپنے کاروبار ختم کرنا شروع کیے، جائیدادیں بیچنے لگے اور اس ملک سے دور پناہ حال کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ کئی شیعہ ہزارہ آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش میں سمندر میں کشتی الٹنے کے باعث ڈوب گئے۔

صوبائی حکومت نے ہزارہ شیعوں کے منظم قتلِ عام  کو روکنے کے لیے کوئی موثر کوششیں نہیں کیں۔ ایسے میں نہ صرف ان متاثرین کی روز بہ بروز بڑھتی ہوئی بے بسی یقینی تھی بلکہ  اُن کے لیے بھی پریشان کُن جو ان کے حالات پر نظریں رکھے بیٹھے تھے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بحران کے پیچھے جو وجوہات کار فرما ہیں، وفاقی حکومت انہیں تلاش کرتی مگر اس نے صوبائی حکومت کی کمزوریوں کو تلاش کرکے انہیں مدد فراہم کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا بلکہ اس کی مذمت کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

ایسے میں کہ جب شیعہ ہزاروں نے اپنے پیاروں کے جنازوں کی تدفین سے انکار کرکے، انہیں سامنے رکھ کر دھرنے کا فیصلہ اور کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو اس کے پیچھے ان کی فرسٹریشن تھی، عدم اعتماد تھا اور وہ بے بسی تھی کہ جس کا سبب ایک دہائی سے جاری ہلاکتیں اور انصاف کی عدم  فراہمی ہے۔

صرف ایک سانحے میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے باعث وہ صدمے میں تھے اور غصے میں بھی مگر اس کے باوجود اور بھی کئی عوامل ایسے تھے جنہوں نے انہیں آہن کی مانند اپنے موقف پر ڈٹ جانے پر مجبور کردیا تھا۔

اول تو یہ کہ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے صوبائی حکومت نے ان کا تمسخر اڑایا تھا۔ صرف چند ہی ایسے تھے کہ جو اُن کے ساتھ مسکرانے کے بجائے، ان کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے جیسا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما صادق عمرانی۔

اگرچہ وزیرِ اعلیٰ نے اپنے خلاف بولنے والے اسپیکر سے بہت عجیب انداز میں اپنا پیچھا تو چھڑالیا مگراخلاقی طور پر وہ اپنا بہت کچھ کھو بیٹھے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وفاقی حکومت بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کا اعتماد کھوتی چلی گئی۔

ان سب بیان کی گئی باتوں کے باوجود، کمزور ترین رئیسانی حکومت کی قلعی اُس وقت ہر شخص پر کھل گئی جب سپریم کورٹ نے اس حکومت کی موت کے پروانے پر دستخط کیے تھے۔

دس جنوری کے کوئٹہ سانحہ پر پورے ملک میں ہونے والے احتجاج کے بعد وفاقی حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ رئیسانی حکومت کی برطرفی کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کردے۔

حالات کے پیشِ نظر بلوچستان حکومت کی برطرفی کا فیصلہ کرتے وقت وفاقی حکومت یہ بات فراموش کربیٹھی کہ آج کا فیصلہ منطق کی بنیاد پر، کل اُس پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے۔

اگر فوری طور پر نہیں تو آگے چل کر بھی اس بات کا امکان نظر نہیں آتا ہے کہ یہ فیصلہ جمہوریت پسندوں کی حمایت حاصل کرسکے گا۔

کسی منتخب حکومت کی برطرفی ویسے ہی ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے، وہ بھی تب جب غیر موثر اور بدعنوان وزارت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اور بھی طریقہ کارموجود ہوں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت وزیرِ اعلیٰ سے وزارت چھوڑنے یا پھر اسمبلی کی برطرفی کی ایڈوائس دینے کا کہہ سکتی تھی۔ یہ ایسا فعل ہے جو سن دو ہزار آٹھ کے بعد والی بلوچستان کی اس سیاسی قیادت کے لیے حقیقت پر مبنی پیغام ہوتا۔

اگر وہ چاہتے تو ہزارہ برادری کے مطالبے پر عمل کے لیے وزارت کی برطرفی کے علاوہ بھی کئی اور قابلِ معنیٰ اقدامات ہوسکتے تھے۔

وہ لوگ جو بلوچستان کی صورتِ حال کو جانتے ہیں، وہ کافی عرصے سے یہ شکایت  کر رہے تھے بلوچستان میں منتخب جمہوری حکومت ہونے کے باوجود عوامی قیادت کو اختیارات نہیں سونپے تھے۔

بلوچستان کے لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار حقیقت میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کا پاس ہے، جو کہ تکلیف دہ اور بھاری مذاق ہے۔

اس موقع پر طویل عرصے سے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے والے ہزارہ شیعہ، بالخصوص وہ خاندان جن کے پیاروں کے جنازے اُن کی آنکھوں کے سامنے رکھے تھے، انہوں نے جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، وہ لائقِ تعریف ہے۔ لیکن شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا درست تھا؟

یقینی طور پر انہیں جن حالات کا سامنا ہے اور ان کے اندر جو فرسٹریشن پنپ چکی ہے، اس کے تناظر میں اُن کا مطالبہ برحق تھا۔

بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں جو صورتِ حال ہے، اس میں عوام اتنے تنگ آچکے کہ وہ اس سے باہر نکلنے کے لیے ہر شے پر تیار ہیں مگر 'اس کے لیے' نہیں۔ وہ جلد از جلد اصولی مصلحت کی طرف جانا چاہتے ہیں۔

ان لمحات میں، ناقبلِ برداشت صدمات سے گذرنے والے ہزارہ شیعوں کے پاس شاید کسی اور کے بجائے اسی مطالبے میں امید کی کوئی کرن موجود ہوگی لیکن پاکستان نے سیاسی معاملات میں فوج کو خوش آمدید کہنے کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور اب تو یہ خیال ہی بذاتِ خود بد اخلاقی پر مبنی ہوچکا۔

اس وقت کوئٹہ ہی نہیں بلکہ گلگت ۔ بلتستان، کُرّم ایجنسی اور کراچی میں بھی ہمیں جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ شیعوں کا عقیدے کی بنیاد پر روا قتل کا لا متناہی سلسلہ ہے، جسے ایک عام اور معمول کے جرم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اب ایسے میں کون ان سے قانون کے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گا۔

کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ ریاست کے ترقی پسند جمہوری نظریات نے مذہب کے جھوٹے لبادے میں لپٹے عسکریت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں یا وہ ان کے آگے بے بس ہوچکی ہے۔

ہم اس وقت نظریات کی بنیاد پر استوار تصور سے زیادہ، ایسی بھیانک صورت دیکھ رہے ہیں جس کی اجازت کوئی ثقافت اپنے فرد کو نہیں دیتی۔

یہ کوششیں کبھی مسلح عسکریت پسندوں کی شکل لے لیتی ہیں تو کبھی لوگوں کو اپنی چکنی چپڑی لچھے دار باتوں میں الجھا لیتی ہیں۔

صورتِ حال چاہے دونوں میں سے کوئی بھی ہو، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے مکار سیاستدانوں کو شک و شبہات کی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں۔ کیا بھیانک منظر نامہ ہے۔ 


ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (3) بند ہیں

انور امجد Jan 18, 2013 11:42pm
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بلوچستان کے پاس وہی اختیارات ہیں جو باقی تین صوبوں کے پاس ہیں۔ اگر دہشت گردی کی بات کی جائے تو خیبر پختونخواہ اس کا زیادہ شکار ہے لیکن بے اختیار ہونے کی کوئی شکائت ان کی طرف سے نہیں آتی۔ ملک میں پچھلے چند سالوں میں سب سے بڑی دہشت گردی کی کاروائیاں بھی خیبر پختونخواہ میں ہوئی ہیں لیکن وہاں کی صوبائی حکومت نے کبھی بے بسی ظاہر نہیں کی بلکہ بہت بہادری سے اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ امدادی کاروائیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان کو بہت جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا اور بشیر بلور سمیت کئ سیاسی رہنما شہید ہوئے۔ وہاں کبھی مرکزی حکومت کی مداخلت نظر نہیں آتی۔ اگر اسی طرح کی کاکردگی بلوچستان حکومت کی ہوتی تو شائد کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کی ہمّت نہ ہوتی۔
TAHIR ZAIDI Jan 20, 2013 04:52pm
totally useless article, diverting the issues towards wrong direction
Hasan Jan 21, 2013 12:02am
Balochistan government was never powerless. Rather, Raisani, Ali Madad Jatak, few other ministers and high level officials were themselves involved in targetkillings, kidnappings and other criminal activities. These and certain corrupt police officers showed hatred and resentment towards the Shia Hazara community. The solution of Balochistan's woes lies in an honest provincial and a strong federal government. It is very unlikely that Balochistan will ever get an honest government. Such people do not exist in this province.