Scientists-aim-to-print-3D-kidney-670
ڈاکٹر انتھونی اٹالا اپنی ایجاد کردہ پرنٹنگ مشین سے گردہ پرنٹ کرکے دکھا رہے ہیں۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

اکثر سائنس فکشن فلمیں دیکھنے والے نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا جلے، کٹے  اور خراب ہو جانے والے  اعضائے جسمانی کے  دوبارہ اُگنے کا تصور کبھی حقیقت بن سکے گا؟

 لیکن اب یہ محض کسی سائنس فکشن فلم کی کہانی نہیں رہی بلکہ اب یہ تصور حقیقت بننے جارہا  ہے۔

ہر سال انسانی اعضا کی منتقلی کی ضرورت  بڑھتی جا رہی ہے، جسے اب پورا کرنا محال ہوتا جا رہا ہے۔  روز بروز بڑھتی ہوئی اسی ضرورت کے پیش نظر سائنسدانوں کو یہ خیال آیا کہ اگر کسی زندہ انسان کے جسم سے گردے یا کوئی اور عضو نکال کر دوسروں کو لگانے کے بجائے وہ لیبارٹری میں  تیار کیے  جا سکیں تو کتنے ہی لوگوں کا بھلا ہوسکے گا۔

چنانچہ برسوں کی ریسرچ کے بعد ڈاکٹر انتھونی اٹالا کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ٹیم ایسا حیاتیاتی مادہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جو کسی کپڑے کے ٹکڑے کی طرح دکھائی دیتے ہیں لیکن انہیں جسم میں پیوست  کیا جا سکتا ہے۔

جسم کے خلیوں سے امتزاج پیدا کرکے یہ جسم کے اندرونی حصہ کی طرح ہی تیار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اٹالا کہتے ہیں کہ خاص طور پر تیار نامیاتی مواد کی مدد سے سائنسدان خراب خلیوں کی مرمت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

تقریبا ًبارہ سال پہلے ڈاکٹر اٹالا کی ٹیم نے ایک دس سال کے بچے کے مثانے کا ایک ٹکڑا لے کر اسے لیبارٹری میں تیار کیا اور مکمل طور سے تیار اس مثانے کو پھر سے بچے کے جسم میں آپریشن کے ذریعے جوڑ دیا۔

آج اس بچے کی عمر بیس سال سے زیادہ ہے اور وہ دیگر عام لوگوں کی طرح زندگی گزار  رہا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ایک عام انک جیٹ پرنٹر کی طرح ہی کام کرتا ہے، بس اس میں انک  کے بجائے  زندہ خلیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پرنٹنگ کی اس نئی ٹیکنالوجی کے تحت پہلے ایک بڑے اسکینر سے مریض کے زخمی حصے کو اسکین کیا جاتا ہے، پھر کمپیوٹر کی مدد سے اس زخم کو مناسب خلیوں سے بھر دیا جاتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی ابھی ترقی کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ بذریعہ آپریشن اعضاء کی منتقلی کے مریضوں میں تقریباً نوّے فیصد گردے کے مریض ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسانی گردے ایک ساتھ کئی کام کرنے والا ایک پیچیدہ عضو ہے، اسی لیےاس کی کئی پرتوں  کا تین سو ساٹھ ڈگری سے اسکین  کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد پرت در  پرت کی شرح سے تھری ڈی  پرنٹنگ کی جاتی ہے۔ ایک گردے پرنٹ ہونے میں تقریباً سات گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

ڈاکٹر اٹالا نے اس وقت  پرنٹ ہونے والا  ایک گردہ میڈیا کو دکھایا۔ یہ بالکل اصلی گردے کی طرح ہی ہیں، لیکن ان کے کام کرنے کی صلاحیت کو انسانی گردوں کے برابر لانے  میں ابھی مزید کچھ  وقت لگے گا۔

 ڈاکٹر اٹالا کو امید ہے کہ چھوٹی  بڑی کئی مشکلات کے باوجود اس حوالے سے اب بڑی خوشخبری سنانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

 بشکریہ بی بی سی ہندی

تبصرے (0) بند ہیں