سابق وزیر، اعلیٰ بلوچستان ، سردار اختر مینگل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ۔ فائل تصویر
سابق وزیر، اعلیٰ بلوچستان ، سردار اختر مینگل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ۔ فائل تصویر

بلوچستان نیشنل پارٹی ۔ مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے واضح کیا ہے کہ باغیانہ تنازعات میں گھرے بلوچستان کا مسئلہ آنے والے انتخابات سے حل نہیں ہوگا۔ وہ تمام حلقے جو ریاستی معاملات میں عمل دخل رکھتے ہیں، اس کے لیے انہیں سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

حال ہی میں ملک کے الیکٹرانک میڈیا نے اطلاع دی تھی کہ اختر مینگل نے چیف جسٹس کو ایک کھلا خط بھی ارسال کیا ہے تاہم صرف چند اخبارات نے ہی اس کا حوالہ دیا۔

امید ہے کہ یہ ڈیسک پر بیٹھے ذمہ داروں کے ایک غلط پیشہ ورانہ فیصلے کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا اور وہ لوگ خط کے مندرجات تک رسائی سے انکار نہیں کریں گے۔

یہ ممکن ہے کہ مذکورہ خط، گذشتہ برس سپریم کورٹ میں جناب مینگل کے پیش ہونے کا ہی ایک فالو اپ ہو اور یہ کوشش بھی اس کا حصہ ہو کہ اعلیٰ عدلیہ ان کے لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے ایک اور قدم اٹھائے۔

یہ خیالات اختر مینگل کے اُن دلائل کی حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران دیے تھے۔ انہوں نے بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی اُن ترجیحات کو چیلنج کیا تھا، جس کی توجہ صوبے کے انتخابی معاملات اور عبوری نگراں سیٹ اپ کے قیام پرمرکوز تھی۔

اگر یہ سیاسی جماعتیں بلوچستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے اور اسمبلی میں حقیقی نمائندوں کو دیکھنے کی خواہش رکھتی ہیں تو پھر، اختر مینگل کا کہنا تھا کہ یہ (سیاسی جماعتیں) سب سے پہلے اُن سے علیحدگی اختیار کرلیں جو ہر روز بلوچستان کے لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہے ہیں۔

معاملے کی گہرائی میں جا کر مزید تحقیق کرنے سے پہلے مناسب یہ ہوگا کہ شفاف انتخابات کے لیے سازگار فضا ترتیب دی۔ یہ صرف بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور شاید حقیقت میں خود ریاست کی سالمیت کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔

ساتھ ہی جناب مینگل کی بات پر کان دھرنے کے جواز بھی نہایت مضبوط ہیں۔ جب ہم بلوچستان میں انتخابی منظر نامے پر بحث کرتے ہیں تو اس حوالے سے تمام تر تحفظات ان علاقوں کے لیے ہیں، جہاں بلوچوں کی غالب اکثریت ہے، پختون آبادی پر مشتمل علاقوں میں روایتی انتخابی بدنظمی کے باوجود کوئی مسئلہ نہیں۔

یہ کوئی راز نہیں کہ بلوچ قوم پرست ہیں اور اُن میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں ریاستی اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں جبر کی راہ چلا رہی ہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے کمیونٹی تین بڑے حصوں میں تقسیم ہوچکی۔ ایک انتہا موقع پرست ہیں جو ہرقیمت پر اسٹیبلشمنٹ کی خدمت پر تیار ہیں۔

دوسری انتہا، سخت گیر قوم پرست ہیں، جن میں سے بعض مسلح ہیں اور انہیں انتخابات سے کوئی سروکار نہیں۔ ان میں سے بعض درحقیقت ایسا خطرہ ہیں جو تششد کے ذریعے انتخابی عمل میں خلل ڈال سکتے ہیں۔

ان دو انتہاؤں کے درمیان ماڈریٹ یا روشن خیال ہیں۔ ان میں سے ایک ذیلی گروہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنی لڑائی پارلیمانی نظام کے اندر رہتے ہوئے لڑے گا اور وہ یہ سوچ کر کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، انتخابی عمل میں شمولیت کی تیاری کررہے ہیں۔ اگر تششدد ناقابلِ برداشت ہوا تو یہ اپنی راہ بدل سکتے ہیں۔

دوسرا ذیلی گروہ، جس میں اختر مینگل اور ان کی جماعت بھی شامل ہے، وہ انتخابات میں حصہ لیں گے اگر ان کی بعض شرائط تسلیم کر لی گئیں۔

شرائط کچھ یوں ہیں: جبری گمشدگیوں اور 'لاپتا افراد' کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اور دوسری شرط، ضمانت دی جائے کہ بلوچستان مٰن فوج کی موجودگی انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

جمہوریت کے حق میں یہی سب سے بہتر ہے۔ شفاف انتخابات کے باعث درمیانی قسم میں موجود یہ لوگ اس قابل ہوسکیں گے کہ وفاق کی اکائی اور ریاست کے درمیان اہم کردار ادا کرتے ہوئے، سیاسی بحالی اور تعمیرِ نو کی کوشش کرسکیں۔

اس کا متبادل، نام لیتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی رکھنے والے بعض سرداروں اور جرائم پیشہ گروہوں پر مشتمل اتحاد کو منتخب کرانا ہے، جو بلوچستان اور پاکستان کو ناقابلِ تلافی تباہی کی جانب مزید دھکیلیں گے۔

لہٰذا، ضرورت ہے کہ بلوچستان کے سیاسی انتخابی منظر نامے میں، اس درمیانی گروہ کے سیاسی کردار کی حمایت کی جائے اور اختر مینگل اور ان کی طرح کی دیگر سیاسی شخصیات کو، سیاسی منظر نامے پر آنے کا راستہ دیا جائے۔

ان مراحل میں ایک مقام ایسا آئے گا جو خود الیکشن کمیشن کا امتحان بھی ثابت ہوگا، اسے بھی درست طور پر نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔

انتخابات میں فوج کے کردار سے متعلق پنجاب کا نظریہ بلوچ نہیں مانتے۔ اس تصور کا سبب، فوج کا بلوچستان کے بحران میں کردار ہے۔ اب ایسے میں الیکشن کمیشن اس مسئلے پر کس طرح قابو پائے گا؟

اس کے علاوہ، ایک دوسرا، شاید سب سے زیادہ اہم مسئلہ وہ ہے جو اختر مینگل نے اٹھایا اور جس کے لیے سن دو ہزار بارہ میں سپریم کورٹ بھی لڑتی رہی: گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشوں کا پھینکنا اور قانون کے نفاذ کا مکمل فقدان۔

صورتِ حال بدستور ہد حال رہی اور عدالت تاسف سے ہاتھ جھاڑ بیٹھی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ چھ ماہ تک اس معاملے پر نظریں گڑائے احکامات دیتے رہے، اقدامات کی نگرانی کرتے رہے مگر نتیجہ کیا نکلا: صفر۔

عدالت ہر شے کی ناکامی کا ملبہ رئیسانی حکومت اور ان کی انتظامیہ پر ڈالتی رہی۔ اس نے وفاق کو بھی اس بات کا ذمہ دار ٹھرایا کہ جب صوبائی مشینری آئینی طور پر غیر فعال ہوچکی تو اس نے مداخلت کیوں نہ کی۔ عدالت نے رئیسانی حکومت کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا مگر تاخیری حربے آڑے آتے رہے۔

شاید یہ بات ضروری ہے کہ صاحبانِ اختیارات عدالت کے تجزیات کا جائزہ لیں۔ ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ جو کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا گیا۔

رئیسانی حکومت کی نااہلیت ثابت ہوئی تب، جب مختصر وقفے کے دوران، کوئٹہ کی ہزاری برادری کو دو بار نہایت بھیانک بم حملوں کا نشامہ بنایا گیا۔ اگرچہ اس کے بعد بلوچستان حکومت کو معطل بھی کیا گیا تاہم زمینی حقائق جُوں کے تُوں رہے۔

گورنر راج کے دوران کیا تبدیلی آئی، اس کا اظہار ہوتا ہے اُن گمشدہ بلوچوں کی ملنے والی مسخ لاشوں سے، جنہیں کراچی میں پھینکا جانے لگا۔ بلوچوں پر بدستور جاری رہنے والے تششد کا ردِ عمل یقینی بات ہے۔

بدقسمتی سے اس وقت بلوچستان معمے کے حل کا کوئی سِرا بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ ممکنہ طور پر فوج کو چھوڑدیں، لیکن اس وقت کوئی ایک جماعت یا ادارہ ایسا نہیں کہ جو انتخابات اور اس کے بعد، طویل المعیاد امن کی ضمانت دے سکتا ہو۔

کچھ ہوسکتا ہے اگر تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے متحد ہو کر اپنی ذمہ داریاں تسلیم کرتے ہوئے، بلوچ مفادات میں کچھ بہتر کرنے کی ٹھان لیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ اور اختر مینگل، پاکستان کے شہریوں، بالخصوص بلوچستان سے باہر کے روشن خیالوں سے، صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ آیا وہ اس امتحان پر پورا اتریں گے۔


ترجمہ: مختار آزاد

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں