بینادی طور پر زراعت سے وابستہ راجہ ریاض احمد چھبیس جولائی، سن اُنیّسو اکسٹھ کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔

گورنمنٹ کالج، فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔

بطور قانون ساز ان کے کریئر کی ابتدا سن اُنیّسو ترانوے میں ہوئی جب وہ پہلی بار رکنِ پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔

وہ سن اُنیّسو چھیانوے میں، صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں قومی اسمبلی کی تحلیل اور پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کی برطرفی تک رکن رہے۔

دوسری بار وہ سن دو ہزار میں رکنِ پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں انہیں تیسری بار فیصل آباد کے صوبائی حلقہ پینسٹھ سے کامیابی حاصل ہوئی۔

سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد ان کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوا اور پیپلز پارٹی نے انہیں پنجاب اسمبلی میں اپنا پارلیمانی قائد مقرر کیا۔

سن دو ہزار گیارہ میں، جب پی پی پی نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا تو راجہ ریاض کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا۔

سن دو ہزار آٹھ تا تیرہ پر مشتمل پنجاب اسمبلی میں راجہ ریاض پیپلز پارٹی کے اپوزیشن محاذ پر صفِ اول میں رہے۔ ان کی ہمیشہ ہی مسلم لیگ نون کے ارکان سے نوک جھونک چلتی رہی۔

اگرچہ وہ شریف برادران کے سخت نقاد رہے تاہم سپریم کورٹ کے اصغر خان کیس فیصلے کے بعد ان کی تنقید میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔

اسی سال انہوں نے مبینہ طور پر الزام لگایا کہ اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف دُہری شہریت رکھتے ہیں۔

جب عدالت نے انہیں شہباز شریف سمیت طلب کیا تو وہ اپنی بات سے پِھر گئے اور کہا کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

راجہ ریاض جب سے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر ہوئے وہ ہمیشہ شریف برادران پر یہ الزام عائد کرتے رہے کہ وہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سن دو ہزار دس میں، بطور رکنِ پنجاب اسمبلی، جمع کرائے گوشوارے کے مطابق راجہ ریاض کے اثاثوں کی کُل مالیت چوالیس اعشاریہ اکتیس ملین تھی، جس میں تین دکانیں، ایک چار کنال کا پلاٹ اور زرعی زمین کا رقبہ شامل تھا۔

وہ ایک فیکٹری کے بھی مالک ہیں جس کی مالیت چھیالس ملین روپے ہے۔

تحقیق و تحریر: سحر بلوچ

انگریزی سے ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (0) بند ہیں