nawaz-sharif-670-2
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمّد نواز شریف --.

اب جب کہ انتخابات کی اختلافی دھول مٹی بیٹھ گئی ہے، قومی بحث کا موضوع صرف یہ نہیں کہ کیا کام سب سے پہلے کرنا ضروری ہے بلکہ یہ ہے کہ آگے بڑھنے کا کونسا راستہ بہتر ہے، پاکستان کا مرکزی مسلہ ابھی بھی حکمرانی کا طریقہ کار ہی ہے-

نئے وزیر اعظم کو اپنے کام کرنے کا طریقہ بدلنا ہوگا انہیں اس بات کا شعور رکھتے ہوئے حکومت کی قیادت کرنا ہوگی کہ پارلیمنٹری نظام ضرورت سے زیادہ طاقت کے حامل وزیر اعظم کا سامنا نہیں کرنا چاہتا، اسکا مطلب کابینہ کے مطابق حکومت کرنا-

حکومت کے تمام اعمال کے لئے حتمی منظوری کابینہ کی ہی ہوتی ہے اور وہ مشورے جو وزیر اعظم، ریاست کے سربراہ کو دیتا ہے اسکی پشت پر کابینہ کی ہی منظوری ہوتی ہے- کابینہ ہی مجموعی طور پر پارلیمنٹ کا سامنے جوابدہ ہوتی ہے-

ایک مضبوط وزیر اعظم کے لئے کابینہ ایک ایسا وجود ہوتا ہے جو ان کے مقاصد کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ ایک ایسی گاڑی جس کے اتفاق راۓ سے وہ اپنے فیصلے لاگو کر سکے- ایک اچھی کابینہ سیاست دانوں کے جذباتی فیصلوں، بنا آزمائی اسکیموں کے استعمال، اور کسی مقبول انٹرپرائز کے لئے قوائد کی تبدیلی کے لالچ پر نظر رکھتی ہے-

غیر رسمی سیاسی نمائندوں (احباب، فیملی، بیوروکریٹ وغیرہ) کے اکسانے پر کوئی فیصلہ یا پالیسی پر عمل کرنے سے کابینہ کے حقوق میں مداخلت ہوگی-

پاکستان نے ایک خفیہ حکومت سے ایک شفاف حکومت تک سست رفتار منتقلی کے لئے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے- ایک بند نظام حکومت جمہوریت کے مقدس نعمتوں میں سے ایک کو نقصان پنہچاتا ہے ----- وہ یہ کہ جمہوریت میں حکمران جو کچھ بھی کر تے ہیں اس کا پتا عوام کو فوراً پتا چل جاتا ہے برعکس آمریت کے جہاں لوگوں کو انکی گڑبڑ کا بہت بعد میں پتا لگتا ہے جب دیر ہو چکی ہوتی ہے- چناچہ یہ بہت ضروری ہے کہ حکمرانی کو جتنا ہو سکے شفاف رکھا جاۓ-

حقوق معلومات کے قانون کا دوبارہ جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے، تاکہ تشہیر پر پابندیوں اور حقوق معلومات میں آزادی زیادہ سے زیادہ دی جاۓ-

حیرت ہوتی ہے کہ نئی حکومت کی ترجیحات میں احتساب موجود نہیں، ایک نیا، جامع اور مؤثر نظام احتساب جلد سے جلد تشکیل دیا جانا چاہیے-

ایک اچھی حکومت اس وقت تک تشکیل نہیں پا سکتی جب تک ملک بھر میں احتسابی نظام رائج نہیں ہو جاتا، ان حالات میں نہ تو حکومت اپنی قانونی حیثیت سے لطف اندوز ہو سکتی ہے اور نا ہی عدالتوں پر سے سیاستدانوں اور حکومتی دفتروں میں موجود کالی بھیڑوں کے تعاقب کا غیر ضروری بوجھ کم ہو سکتا ہے-

میاں نواز شریف کے اپنی پارٹی کے نۓ منتخب کردہ پارلیمنٹیرین سے خیرسگالی میں لپٹے خطاب کے دوران یہ بات قابل حوصلہ سننے کو ملی کہ وہ تمام پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں-

یہ جمہوریت کی اصل روح کے مطابق ہی ہے کہ جب انتخابات کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو تمام پارٹیاں پارلیمنٹ میں حلیف بن جاتی ہیں تاکہ عوام کی خواہش کے مطابق حکومت کی جا سکے-

اس دوران جب حزب اختلاف عوام کی طرف سے چوکیداری کا کردار ادا کر رہی ہوگی اسکو چاہیے کہ حکمران پارٹی کو اکثریتی حکومت کی طرف جانے سے روکے، کبھی اس کے غلط اقدامات کی مذمت کر کے تو کبھی اس کے منصفانہ اقدامات کی حمایت کر کے-

جمہوری اجتماعات مضبوط کرنے میں ایک برے ریکارڈ کے باوجود، پاکستان نے پچھلے چند سالوں میں اشتراکی جمہوریت کی سمت میں نمایاں قدم بڑھاۓ ہیں-

جن میں مثال کے طور پر پارلیمنٹ میں کئی جماعتی سٹینڈنگ کمیٹی کے کردار کو بڑھانا، ان کمیٹیوں کی چیئرمین شپ مختلف پارٹیوں کے ارکان کو دینا، اور پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی چیئرمین شپ، مرکزی حزب مخالف پارٹی کو دینا شامل ہیں-

یہ تجربات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور اس سے پہلے کہ یہ جمہوری حکمرانی کی وسعت بڑھانے کے مقصد کے لئے استعمال ہوں ان کی نگہداشت توجہ اور کھلے ذہن سے کرنے کی ضرورت ہے-

ماضی قریب میں ایک اور پیشرفت جس کا سہرا جانے والی حکومت کو ملتا ہے وہ نجی ارکان کو پارلیمنٹ کی قانون سازی کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ مواقع دینا ہے-

یقیناً نجی ارکان خاص طور سے خواتین کی عوامی قانون سازی میں شمولیت کی مسلسل حوصلہ افزائی جمہوری عمل میں استحکام لاۓ گی- اس کے ساتھ ہی یہ اپنی جبری طاقت کے استعمال کے لئے بناۓ گۓ حکومتی قوانین میں توازن لاۓ گی-

شاید یہی وقت ہے رولز آف بزنس (آئین کے آرٹیکل 99) کے تنقیدی جائزے کا، جو کہ مرکزی حکومت کی رہنمائی کے لئے بنایا گیا ہے- یہ قوائد اصل میں نو آبادیاتی زمانے کے وائسرائے نے بناۓ تھے، 1973 کی حکومت نے اس پر نظر ثانی کی تھی اب اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ کابینہ کے فیصلہ سازی کے کردار کو استحکام دیا جا سکے، حکومت کے اندر صلاح مشورے کی راہ ہموار کی جاسکے، عوام کے ساتھ رابطہ بڑھایا جا سکے، اور ایسی بے قاعدگیوں سے بچا جا سکے جو معاملات کو عدالت تک لے جانے کا باعث بنتے ہیں-

ان قوائد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابقہ صدر فاروق لغاری نے ان قوائد میں ترامیم کر کے نیشنل سیکورٹی کونسل بنائی تھی-

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پارلیمانی نظام میں مرکزی حکومت کی رہنمائی کے لئے قوائد و ضوابط بنانے کا استحقاق ریاست کے سربراہ کے پاس ہی رہنا چاہیے-

سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عظیم مقصد فقط اتحاد بنانے، حکومتی گروہ سے باہر کے لوگوں کو وزارتیں اور پارلیمانی دفاتر دینے سے پورا نہیں ہوگا- یہ ایک ایسے نظام کا مطالبہ کرتا ہے جو صرف پارلیمنٹ کے افسران اعلیٰ کی کارکردگی کے لئے مؤثر نہ ہو بلکہ ریاست کے تمام اعضاء کا سول سوسائٹی کے ساتھ مستقل اور معنی خیز تعاون کی بھی ضمانت ہو-

نظریں ایک ایسے نظام کی تشکیل پہ مرکوز ہوں جو پاکستان کے عام مرد و عورت کو اس بات کا اطمینان دلا سکے کے حکومت میں انکا کردار فقط ووٹ ڈالنے کی حد تک نہیں تھا اور یہ کہ حکومت جو بھی کرتی ہے یا نہیں کرنا چاہتی ہے اس پر انکی راۓ اہمیت رکھتی ہے- حقیقت میں اسکو دیکھا اور سمجھا جاتا ہے یا کم از کم سنا ضرور جاۓ گا-


ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں