”پاکستان مودی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے“

15 نومبر 2013
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز۔ —. فائل فوٹو
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز۔ —. فائل فوٹو

نئی دہلی: اگلے سال مئی میں ہونے والے ہندوستانی انتخابات میں پاکستان کے لیے کوئی پسندیدہ نہیں، تاہم دائیں بازو کے امیدوار نریندرا مودی اگر ہندوستان کے اگلے وزیراعظم بنتے ہیں، تو اسلام آباد ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

پاکستان کے خارجہ پالیسی کے مشیر سرتاج عزیز یا یہ بیان جمعرات کو یہاں ایک انٹرویو میں شایع ہوا۔

انہوں نے دہلی میں اکنامک ٹائمز کو بتایا کہ دونوں ملکوں کے ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹرز جنرل کی میٹنگ جو تاخیر کا شکار ہے، اب منگل کو جب وہ ہفت روزہ ہاٹ لائن پر رابطہ کریں گے تو امید ہے کہ اس دوران اس کا شیڈیول بھی طے کرلیا جائے گا۔

انہیں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے مسئلے کے حل کا آغاز کرنا چاہئیے ۔ چھ اگست کو ہونے والی ان میں سے ایک خلاف ورز ی کی وجہ سے کسی بھی پیش رفت کے امکانات سنگین حد تک معدوم ہوگئے تھے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ امن وزیراعظم نواز شریف کے انتخابی پروگرام کا اہم جزو تھا اور انہوں نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپنے امن مشن کا آغاز کردیا تھا۔

”ابتدائی چھ ہفتوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آگئے تھے۔ نواز شریف اور منموہن سنگھ نے دو مرتبہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی۔ اس کے بعد بیک چینل مذاکرات شہریار خان اور ایس کے لامبا کے درمیان شروع ہوگئے تھے۔ جس کا ایک دور دہلی میں اور دوسرا دبئی میں ہوا تھا۔“

سرتاج عزیز نے ہندوستانی وزیرِ خارجہ سلمان خورشید کے ساتھ ملاقات کی اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے چھ ورکنگ گروپس کا فیصلہ کیا۔

”تاہم جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ چھ اگست کے افسوسناک واقعہ سے ایک بڑا دھچکا لگا تھا۔ اس سے دو طرفہ تعلقات متاثرہوئے۔ میری رائے میں یہ معاملہ ہندوستان کے انتخابی عمل کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ چھ اگست کے واقعات اور لائن آف کنٹرول پر اس سال ہونے والے دیگر واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔

”اس کے علاوہ گزشتہ جنوری میں بھی ہم نے گیارہ سپاہیوں کھودیا تھا۔ اس مرحلے پر بغیر ثبوت کے یہ کہنا مشکل ہے کہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا ذمہ دار کون ہے۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی صورتحال کو 2003ء کی سطح پر لایا جائے۔“

کیا وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت اگر انتخابات کے قریب حوصلہ مند طریقے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں مشغول رہے گی تو اس کا سیاسی سرمایہ ضایع ہوجائے گا؟

اس سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ ”دونوں ملک امید رکھتے ہیں کہ ہندوستانی انتخابات سے قریبی عرصے میں بھی یہی رفتار برقرار رہے گی۔“

انہوں نے کہا کہ ”اس وقت سے آپ کے ملک میں انتخابات کے انعقاد تک، تجارت اور ہندوستان سے بجلی کی خریداری پر توجہ مرکوز رہے گی۔“

جب ان سے پوچھا گیا کہ نریندرا مودی کو ہمیشہ ہی پاکستان کے مخالف کی حیثیت سے ہی دیکھا گیا۔ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو کیا پاکستان ان سے ساتھ کام کرنے میں اطمینان محسوس کرے گا؟

تو سرتاج عزیز نے کہا کہ ”ہندوستان میں انتخابات جمہوریت کا ایک عظیم تجربہ ہیں، جس کی ہم بہت قریب سے نگرانی اور پیروی کرتے ہیں۔ یہ ہندوستانی عوام کا استحقاق ہے کہ وہ کس کو منتخب کرتے ہیں، وہ اپنے مستقبل کے لیے اپنا حق استعمال کریں، اور ہم آپ کے انتخابی عمل پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ ہمارے لیے کوئی پسندیدہ نہیں۔اگر نریندرا مودی ہندوستان کے اگلے وزیراعظم بن جاتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔یا پھر کسی کے بھی ساتھ ہم کام کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے جو ووٹ کے ذریعے برسرِاقتدار آئے گا۔“

تبصرے (0) بند ہیں