نئی توجہ

19 نومبر 2013
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ، اے پی فوٹو۔۔۔۔۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ، اے پی فوٹو۔۔۔۔۔

ابھی ملک میں گذشتہ ہفتے کے اختتام پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی بازگشت سنائی دے رہی تھی اور حکومت سے سوال پوچھے جارہے تھے کہ کیا وہ اس محاذ پر پیشرفت کی صلاحیت رکھتی ہے کہ گذشتہ روز وزیرِ داخلہ نثار علی خان نے موضوع تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اگرچہ یہ خاصا پریشان کُن تو ہے لیکن شاید حیران کُن نہیں، توجہ بٹانے کی خاطر پرویز مشرف کا انتخاب کچھ کم ہی حیرانی کا باعث بنے۔ حکومت، وزیرِ داخلہ نے اعلان کیا کہ وہ سابق فوجی آمر کے خلاف بغاوت مقدمے کی کارروائی چلانے کے لیے تیار ہیں۔ مگر اس وقت ہی کیوں؟ ظاہر ہے کہ اس مقصد کی خاطر اول تو تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا، تب تک حکومت انجیر کے پتّوں کے پیچھے غائب ہوچکی ہوگی۔

نجی طور پر دلیل دی جاسکتی ہے کہ سست رو اور منظم انداز سے، قانونی تنازعات سے باہر نکلنے والے جناب مشرف کو ایک بار پھر پھانسنے کی یہ کوشش ہے۔ اس سے قبل کہ سابق فوجی آمر کبھی واپس نہ لوٹنے کے لیے ملک چھوڑ کر چلے جائیں، یہ وقت بہتر ہے کہ ذرا غداری کے معاملے پر نظرِ ثانی کرلی جائے۔ ناگزیر طور پر بعض تشریحات صرف فیس ویلیو کے طور پر قبول کرلی جائیں گی لیکن یہاں یہ بھی حقیقت موجود ہے کہ حکومت جب بھی دباؤ میں آتی ہے وہ موضوع ہی بدل دیتی ہے۔

یہ اخبار تواترسے زور دیتا رہا ہے کہ جناب مشرف کو اکتوبر اُنیّس سو ننانوے کی بغاوت سے، کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔ افسوس کہ چاہے حکومت ہو یا عدلیہ، نظر یہ آتا ہے کہ اس پر زور دینے کو کوئی تیار نہیں۔

اس کے بجائے نومبر، سن دو ہزار سات میں جناب مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ پر ہی ان کے خلاف مقدمات کا دفتر کھولنے پر زور رہا جو متعدد چھوٹے چھوٹے سیاسی تحفظات کے لیے ہی بڑے اطمینان کاباعث ہے۔

حتیٰ کہ اب اس پر بہت زیادہ شبہات موجود ہیں کہ اسپیشل پراسیکیوٹر کی تفتیش اور خصوصی ٹریبونل کے تحت مقدمے کی سماعت کے بعد کیا ذمہ دار قرار دیے جانے کا فیصلہ تھمادیا جائے گا۔ بہرحال، اب تک جناب مشرف پر جتنے بھی مقدمات بنائے گئے، ان سے تو یہی نظر آتا ہے کہ وہ تمام کے تمام، ضمانت پر رہائی دینے کی خاطر ہی قائم کیے گئے تھے۔

پھر بھی اگر انہوں نے کھلے عام دعویٰ کر ہی دیا تو اس سے حکومت اور اعلیٰ عدلیہ پردباؤ تو ضرور پڑے گا کہ کم سے کم کچھ تو دیجیے لیکن ان کے لیے سزا کیا ہوسکتی ہے، ابھی اس کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔

شاید، گذشتہ ہفتے کے پُرتشدد واقعے کے بعد ، حکومت پر ملک بھر میں ہونے والی تنقید سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔

کچھ بُلند و بانگ دعوے، دھواں دھار پریس کانفرنسیں، پارلیمنٹ کو کچھ ٹھوس کر دکھانے کی یقین دہانیاں اور انداز اطوار ایسے کہ کچھ کرگزرنے کا گماں ہو اورپھر اس کے بعد۔۔۔ پہلے سے کم توجہی کی حامل قوم کی توجہ مزید باٹنے کے لیے ایک اور بحران کا انتظار۔

یقینی طور پر ملک کی قیادت اور حکومت چلانے کا یہ کوئی اچھا طریقہ نہیں۔ مسائل کے انبار ہوں اور خوف پروان چڑھ رہے ہوں تب ذہنوں میں صرف ایک ہی چیز ہوتی ہے اور وہ ہے ملک کی حقیقی قیادت۔

تبصرے (0) بند ہیں