”مشرف کے خلاف 1999ء کی بغاوت کے جرم پر مقدمہ چلایا جائے“

20 نومبر 2013
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ ہر ایک جانتا ہے کہ کس نے فوجی بغاوت کی توثیق کی اور مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا۔ —. فائل فوٹو
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ ہر ایک جانتا ہے کہ کس نے فوجی بغاوت کی توثیق کی اور مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: حزب اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پر 1999ء میں فوجی بغاوت کے اقدام پر غداری کا مقدمہ چلائے، مزید یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی آئینی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے پیپلزپارٹی تعاون کے لیے تیار ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ان کی پارٹی نے سترہویں آئینی ترمیم کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا، جس سے جنرل مشرف کے پچھلے اقدامات کو قانونی تحفظ مل گیا تھا۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ اگر حکومت تین نومبر 2007ء کے بجائے 1999ء کے اقدام پر فوجی آمر پرمقدمہ چلانا چاہتی ہے تو پیپلزپارٹی آئین میں ترمیم کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔

خورشید شاہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کے معاملے میں حزبِ اختلاف کو اعتماد میں نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بارہ اکتوبر 1999ء کو مشرف نے ایک منتخب حکومت کو برطرف اور آئین کو معطل کرکے ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”تین نومبر 2007ء کو ہنگامی حالت کے نفاذ کو 1999ء کی بغاوت کے تسلسل میں ہی دیکھنا چاہئیے۔“

خورشید شاہ نے کہا کہ ”آئین کا آرٹیکل چھ اس وقت کے تمام کور کمانڈروں پر لاگو ہوتی ہے، جو بغاوت کے وقت ملک میں موجود تھے، جس وقت جنرل مشرف ہوائی جہاز میں تھے۔اگر حکومت کسی کو تحفظ دینا چاہتی ہے تو اسے واضح طور پر بیان کردینا چاہئیے۔“

اس دور کی عدلیہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر ایک جانتا ہے کہ کس نے فوجی بغاوت کی توثیق کی تھی، اور جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا۔

اس کے بعد خورشید شاہ نے کچھ سیاسی شخصیات کے نام لیے اور کہا کہ زاہد حامد جو مشرف کے دورِ حکومت میں وزیر قانون تھے، آج وفاقی کابینہ کے ایک رکن ہیں اور جمیعت علمائے اسلام-ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جنہوں نے سترہویں ترمیم کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا، آج حکومتی اتحاد میں شریک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تین نومبر کو جب جنرل مشرف نے ہنگامی حالت نافذ کی، تو پوری کابینہ موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج کوئی ایک بھی اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے نام کی نشاندہی نہیں کرتا۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ آخر کیوں سابق حکمران جماعت مسلم لیگ قاف پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، جب نواز شریف، فوجی آمر کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت جلاوطن ہونے پر مجبور ہوئے تھے، اس وقت قاف لیگ نے جنرل مشرف کی حمایت کی تھی۔

خورشید شاہ نے یہ سوال بھی کیا کہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کا اعلان جس وقت کیا ہے، اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تصادم اور دیگر حساس معاملات سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے راولپنڈی کے واقعات کو حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا ایک نتیجہ قرار دیا۔انہوں نے وزیراعظم پر بھی تنقید کی کہ ملک میں سخت کشیدگی کے باوجود انہوں نے اپنا غیرملکی دورہ مختصر نہیں کیا۔

انہوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ عاشورہ کے سانحے پر بحث کے لیے فوری طور پر پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اگر حکومت نے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب نہیں کیا تو وہ خود اس کی درخواست کریں گے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملے پر وزیراعظم اور ان کے درمیان اب تک کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں