جمہوریت یا خلافت؟

فائل فوٹو۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔

1945 کے بعد امریکہ نے بلاشبہ ہر شعبے میں بے مثال ترقی کی ہے- بہرحال امریکہ کے اس بے مثال ترقی کرنے کی وجہ دائیں بازو والوں کا یہ زعم ہے کہ امریکہ پر تاریخ اور عالمی اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا اور اس کھلی چھوٹ کی وجہ سے امریکہ سب کچھ کرسکتا ہے اور جو چاہے حاصل کرسکتا ہے-

امریکہ کے موجودہ معاشی زوال اور عراق میں عالمی اصولوں کو خاطر میں نہ لانے کے رویئے نے ‘امریکن چھوٹ’ کے اوپر اس یقین کو ایک زبردست جھٹکا دیا ہے-

امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کی کامیابیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور زیادہ ترعالمی تجزیے میں بہت ہی نچلے درجے پر ہونے کی وجہ اس کی بری قیادت ہے- حالانکہ ان کے پاس بہترین انفرادی صلاحیتیں موجود ہیں- بالکل اسی طرح، پاکستان کے بارے میں بھی اسی طرح کی چھوٹ کا خیال کچھ قدآمت پسند ذہنوں میں بھی پل رہا ہے- پاکستان کے معاملے میں یہ خیال دو صورتوں میں ہے جو آپس میں جڑی ہوئی ہیں: سیاسی اور نظریاتی-

سیاسی طور پر، پاکستان کو اپنی سیکیورٹی ٹارگٹس کو معاشی ترقی کے اوپر ترجیح دینی چاہئے اور اس مقصد کے لئے شدت پسندوں کی حمایت ضروری ہے چاہے یہ بات عالمی اصول و قوائد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو- اس دلیل کا جواز قدآمت پسندوں کے مطابق یہ ہے پاکستان کو ایک ‘خاص’ صورت حال کا سامنا ہے جہاں سرحدی تنازعات اورخطرات کا نشانہ ہونے کی بنا پر اس کا وجود خطرے میں ہے اور وہ ہندوستان اور افغانستان کے بیچ سینڈوچ بن گیا ہے-

حالانکہ یہ دونوں صورتیں ‘خاص’ نہیں، ہندوستان چین اور پاکستان کے بیچ میں سینڈوچ ہے، جو خود ہندوستان اور روس کے بیچ میں سینڈوچ ہونے کے ساتھ ساتھ امریکن فوجوں اور ان کے اتحادیوں کے درمیان گھرا ہوا ہے- چین کا تائیوان پر دعویٰ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان کا کشمیر پر- عالمی طور پر دنیا بھر میں سو سے زیادہ زمینی تنازعات اس وقت موجود ہیں-

تاہم، چند ہی ملک ہونگے جو اپنی سیکیورٹی پر معاشی ترقی کو اس طرح بھینٹ چڑھا دیں جیسے پاکستان نے کیا ہے- نہ کسی نے شدت پسندوں کو پاکستان کی طرح سے پالا ہے-

یہ صحیح ہے، کہ پاکستان کوئی اکیلا ملک نہیں ہے جس کو ایسے مسائل ہوں، روانڈا کے اوپر بھی مشرقی کانگو میں شدت پسندوں کی حمایت کا الزام ہے لیکن سوال یہ ہے پاکستان کی ترجیح چین ہونی چاہئے یا روانڈا-

سچی بات تویہ ہے، کہ امریکن لیڈر تقریباً یہ کہتے کہتے رک گئے کہ پاکستان ایسے گروہوں کی حمایت کرتا ہے- ان کی شکایت عموماً یہ ہوتی ہے کہ پاکستان ایسے گروہوں کو اپنی سر زمین پر برداشت کر رہا ہے- بہر حال ایسے گروہوں کو برداشت کرنے کا مطلب بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ پرائیویٹ گروہوں کے حوالے کردینے کے مترادف ہے-

اب رہی پاکستان کی نظریاتی صورت جو اور بھی زیادہ عمومی ہے یعنی سیاسی صورت حال کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ہم یہ سیکیورٹی اہداف مغربی طرزکی جمہوری ریاست کے ذریعے نہیں حاصل کرسکتے ہیں-

درحقیقت ان کا استدلال یہ ہے پاکستان سیکولر معاشی جمہوری ترقی پر انحصار کرکے ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہوسکتا حالانکہ کئی ترقی پزیر اور مسلم ممالک نے یہ کر کے دکھا دیا ہے- بلکہ پاکستان کی نجات صرف اور صرف مذہب اختیار کر کے عوامی سیاسی پروجکٹس کو پورا کرنے میں ہے- بلکہ موجودہ نظام حکمرانی کی جگہ پر شریعت کے مطابق ایک نظام خلافت ہونا چاہئے-

اگر ہم صرف سروے کی بات کریں، تو اپریل 2013 کی برٹش کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے آمریت اور جمہوریت دونوں پر شریعت کو ترجیح دی تھی – لیکن مئی 2013 کے انتخابات نے ان اعدادوشمار کی صحت کا پول کھول دیا تھا-

جہاں دونوں دائیں بازو کی جماعتوں پی ایم ایل ن اور پی ٹی آئی نے اچھی کارکردگی دکھائی- دونوں جماعتیں جمہوریت اور پاکستان کے آئین کی حامی ہیں- پی ٹی آئی کے قانون سازوں نے یہاں تک کہا کہ پارلیمنٹ میں گستاخی رسول کے قانون میں ترمیم پر بھی بحث کی جانی چاہئے- شریعت اور خلافت کے چاہنے والوں کے خیال میں مذہبی جماعتوں کے ہارنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اول تو ان پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی انتخابات پر-

پہلی بات درست ہو سکتی ہے لیکن دوسری بات 2013 کے انتخابات میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شمولیت نے غلط ثابت کردی ہے-

اور اس کے علاوہ، اگر خلافت کے لئے لوگوں کی حمایت اتنی زیادہ ہوتی اور لوگ انتخابات کو صحیح راستہ نہیں سمجھتے تو کیا وہ اسلام آباد پر چڑھائی نہیں کردیتے، طاہرالقادری کی طرح، اور پھرخلافت کا مطالبہ کرتے؟

ستم ظریفی یہ ہے کہ القادری کی پاکستان عوامی تحریک اور دفاع پاکستان کونسل وغیرہ جیسے گروپوں نے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کیا بھی تو سیاسی مقاصد، جیسے جمہوری اور اچھی حکمرانی اور ڈرون حملوں وغیرہ کے نام پر کیا نہ کہ خلافت قائم کرنے کیلئے- اس قسم کا رجحان یہ ظاہر کرتا ہے اس مخصوص نظام کیلئے مطالبات ایک بہت ہی چھوٹے اور پرشور طبقے تک محدود ہیں جس کا تعلق داہنے بازو سے ہے-

شور مچانے والا یہ طبقہ بمشکل ہی کسی کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے- ان لوگوں سے بات چیت یا ان کے لٹریچرکے مطالعہ سے ان کے نظریہ کے بودے پن کا پتہ چلتا ہے جو کہ آج کی دنیا کے مسائل کو سمجھنے تک کی صلاحیت نہیں رکھتا تو ان کو سلجھانے کی قدرت کہاں سے لائیگا-

اس کے باوجود اس گروہ کی ہرممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر آکر اپنے آپ کو جمہوریت اور آمریت سے آگے ایک تیسرے آپشن کے طور پر پیش کریں-

یہ الگ بات ہے کے جمہوری حکومتوں کی مسلسل ناقص کارکردگی نے لوگوں کی توجہ ان کی طرف مبذول کرنے کا موقع ان کو فراہم کردیا- اس لئے یہ ہمارے لئے ایک اہم موقع ہے کہ ہم ان کے کھوکھلے نظریات کو زوردار طریقے سے چیلینج کریں اس سے پہلے کہ وہ عوام میں قبول عام حاصل کرلیں-

ان نظریات کو سب سے بڑا چیلینج تو یہ حقیقت ہے کہ وہ دوسرے تمام ممالک جنہوں نے مذہبی قوانین اپنے ملکوں میں رائج کئے ہیں ان میں ایک بھی کوئی بڑا کامیاب ملک نہیں ہے- ایران، سعودی عرب، سوڈان اور نائجیریا نے پاکستان سے پہلے اپنے ہاں مذہبی قوانین رائج کرلئے- لیکن اگر کوئی تھوڑی بہت ترقی ان کے ہاں ہوئی ہے تو اس کی وجہ مذہبی طریق حکمرانی سے زیادہ تیل کی دولت ہے- ہاں اس کےجواب میں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ ان کی ناکامی کی ذمہ دار ان کی نااہل قیادت ہے جو شریعت کا نفاز کرنے میں سنجیدہ اورمخلص نہیں تھی-

بہرحال، ان دلائل کے نتیجے میں ایک بہت اہم سوال اٹھتا ہے کہ آج کے زمانے میں پاکستان کو مخلص قیادت کہاں سے ملیگی- کوئی بھی شخص جوابتدا میں خلوص کا مظاہرہ کرتا ہے تھوڑے ہی عرصہ میں پاکستان میں اس کی شخصیت متنازعہ ہوجاتی ہے-

کسی بھی نظریاتی نظام کی بنیاد اور اس کے ادارے، پالیسیاں اور اس کا طریق کار اس کی بنیادی اقدار پر منحصر ہوتا ہے- اور اس نظام کی کامیابی ان لوگوں کے ایمانداری سے ان اصولوں پر عمل کرنے سے ہوتی ہے-

نظریاتی بنیادوں پر چلنے والا سوویت یونین اس لئے ٹوٹ گیا کیونکہ اس کے چلانے والوں نے ایمانداری سے سوشل ازم کے یکجہتی کے اصولوں کو نہیں اپنایا- سرمایہ دارانہ نظام اس لئے بے حد کامیاب ہے کہ اس نظام کے چلانے والے اس کی اقدار پر جو ذاتی مفاد اور مادہ پرستی پر مبنی ہے سختی سے عمل پیرا ہیں حالانکہ وقت گذرنے کے بعد یہ اصول بھی اپنے ہی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں-

شروع کی خلافتیں بھی صرف تین دہائیوں تک ہی قائم رہیں اگرچہ کہ اس وقت ساری اعلیٰ و ارفع شخصیتیں موجود تھیں البتہ ان کے پیروؤں کی کمی تھی جس کی وجہ سے مسلسل بغاوتیں ہوتی رہیں اور تین خلفائے وقت قتل کردئے گئے — مسلمانوں کے ہاتھوں-

یہ سوچنا ناسمجھی ہوگی کہ آج کے زمانے کے بے صبر لوگ آج کے دور کے ناقص خلفاء کو زیادہ دیرتک برداشت کریں گے۔

نظریاتی نظام اس وقت صحیح کام کرتے ہیں جب ان کے چلانے والے بھی باکردار لوگ ہوں- آج کے دور کے نہایت درجہ ناقص لیڈران اور ان ہی کی طرح کے ان کے پیرو، اور تسیلم کردہ ناقص جمہوری نظام بمشکل ہی روک تھام کا سب سےکم ناقص آپشن مہیا کرتے ہیں-

پاکستان کی ‘خاص پوزیشن’ حاصل کرنے کی امید (کارکردگی کے لحاظ سے) ترقی اور جمہوریت کے راستے پر چل کر ہی ممکن ہے-

ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں