کیا ملّا-ملٹری گٹھ جوڑ ٹوٹ رہا ہے؟

21 نومبر 2013
فائل السٹریشن۔۔۔
فائل السٹریشن۔۔۔

جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے اپنے بیان میں دہشتگردوں کے خلاف لڑنے والے فوجیوں کی قربانیوں کی جس طرح تحقیر کی، اس پر ملٹری کے تازہ ترین رد عمل نے دارالحکومت میں بہت سوں کو حیران کر کے رکھ دیا ہے-

جماعت اسلامی، سنہ انیس سو اسی، کے دوران افغان جہاد اور کشمیر کی لڑائی میں فوج کی طوطی بنی رہی- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فوج نے جماعت کی سٹریٹ پاور کو استعمال کرتے ہوۓ، جمہوری حکومت کو کبھی کنٹرول اور کبھی کنٹرول سے باہر احتجاج کے ذریعہ دباؤ میں رکھا-

یہ بھی مانا جاتا ہے کہ مسلح افواج میں ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی کے ماننے والوں کی ہے- حتیٰ کہ ماضی میں جماعت اسلامی کے ایکٹوسٹوں کی رہائش گاہوں سے القائدہ کے لیڈروں بشمول خالد شیخ محمد کی گرفتاری بھی فوج اور جماعت اسلامی کے تعلقات پر اثر انداز نہ ہو پائی-

تو کیا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک نظریاتی قوت کی حیثیت سے اپنی سابقہ امیج کو بدل کر، اب ملٹری خود کو قومی فوج ثابت کرنا چاہتی ہے؟

یہ وہی فوج ہے جس کا جہادی نظریہ جماعت اسلامی سے مطابقت رکھتا ہے-

لیکن آرمی کی طرف سے اتنے شدید رد عمل کا کیا محرک ہو سکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے- حد یہ کہ پرویز مشرف جیسے باعمل حکمران کو بھی اپنی معیاد بڑھانے کے لئے جماعت اسلامی کی مدد درکار تھی- تو پھر کیا وجہ ہے کہ ملٹری اور جماعت دونوں آج ایک دوراہے پر کھڑے ہیں؟

ان روایتی حلیفوں کے درمیان دراڑ اس وقت پڑنا شروع ہوئی جب سنہ دو ہزار چھہ میں جماعت کے ماننے والے –جن میں وکلاء بھی شامل تھے– عدالت میں گمشدہ افراد کا مسئلہ لے کر پنہچے. ان کا دعویٰ تھا کہ ملٹری انٹیلی جنس نے معصوم شہریوں کو القائدہ اور طالبان کی حمایت کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے-

عدالت نے ان کیسز پر غور کرنا شروع کیا اور ان گمشدگیوں کے سلسلے فوج کے کردار پر سوالات اٹھنے شروع ہوگۓ- جماعت کے وکلاء پر ملٹری نے دباؤ ڈالا کہ وہ یہ کیسز چھوڑ دیں اور اس معاملے میں نہ پڑیں- لیکن کیسز اسی طرح چلتے رہے، یہ اور بات ہے کہ ان کے کوئی حتمی نتائج سامنے نہ آسکے-

جس مسئلے نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور کٹر مذہبی جماعتوں کے راستے جدا کر دیے ہیں وہ ڈرون حملے ہیں- جماعت نے ہمیشہ امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ڈرون معصوم شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں- لیکن ملٹری نے امریکا سے ڈرون آپریشنز پر ایک خفیہ اتفاق کر رکھا ہے-

سنہ دو ہزار چار سے دو ہزار آٹھ تک ڈرون حملے پاکستان کی درخواست پر ہوتے رہے- اس بات کی شہادت امریکہ کے لئے پاکستان کے سابقہ سفیر، حسین حقانی نے بھی دی ہے، جنہوں نے اپنی نئی کتاب میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ سابق طالبان چیف، بیت اللہ محسود، جس ڈرون حملے میں مارا گیا وہ پاکستان آرمی کی درخواست پر کیا گیا تھا-

ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر آخری بار جماعت نے ملٹری کی حمایت میں کام کیا- کہا جاتا ہے کہ ملٹری نے اس معاملے کو اچھالنے اور ملک گیر احتجاج شروع کروانے کے لئے مذہبی ایکٹوسٹوں کا استعمال کیا- لیکن بہت سوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ آخر میں آرمی نے خود ‘قصاص’ اور ‘دیّت’ کے اسلامی قانون کے ذریعہ امریکہ کو اپنا آدمی پاکستانی حراست سے نکلوانے کا طریقہ بتایا تھا- اور اس طرح جماعت اسلامی انگارے چبا کر رہ گئی-

پاکستانی فوج، ‘پاک فوج’ سے ( پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستانی فوج کو بڑی چاہ کے ساتھ ‘پاک فوج’ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے) تبدیل ہو کر قومی فوج بن گئی- اس کے برعکس جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی بنیادیں اس وقت سے کھونا شروع کردیں جب لوگوں نے جماعت کی پالیسی اور خود کو ایک کٹر مذہبی تنظیم کی بجاۓ ایک سیاسی قوت میں بدلنے سے انکار پر سوالات اٹھانے شروع کیے-

اب آتے ہیں جناب منور حسن کی طرف، جماعت کے موجودہ چیف جنہیں اپنے پیشرو قاضی حسین احمد کے مقابلے میں کٹر خیالات اور بہت کم سیاسی بصیرت کا حامل سمجھا جاتا ہے- اس کے بعد بھی جماعت کے لئے عوام سے رابطہ قائم کرنا مشکل ہی رہا- سنہ دو ہزار آٹھ اور دو ہزار تیرہ کے انتخابات نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی عوام کی سوچ جماعت کی قیادت جیسی نہیں ہے- لیکن ان سب کے باوجود جماعت کی نئی قیادت نے اپنا وطیرہ نہ بدلا اور بلآخر یہ دن آ ہی گیا-

امریکی ڈرون حملے میں پاکستانی طالبان بگ باس حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر عوام نے مکمل طور پر جماعت اور دیگر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتوں کو اکیلا چھوڑ دیا جس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ عوام ٹی ٹی پی چیف کی ہلاکت کی حمایت کرتی ہے چاہے اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو-

دوسری جانب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کے قتل کے باوجود، نئی حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششوں پر آرمی پہلے ہی کافی چراغ پا ہے، اس پر مزید سیاسی قیادت کی طرف سے دیے جانے والے حالیہ بیانات کچھ اچھا تاثر قائم نہیں کر رہے-

جماعت اسلامی کے چیف منور حسن نے اس بیان بازی میں حکیم اللہ محسود کو ‘شہید‘ قرار دے کر مزید اضافہ کر دیا اور سونے پہ سہاگہ ساتھ ساتھ یہ شوشہ بھی چھوڑا کہ آیا طالبان سے لڑنے والے فوجی شہید ہیں یا نہیں؟

اور یہی فوج کی طرف سے شدید رد عمل کا با عث بنا. فوج نے ناصرف جے آئ چیف کے غیر ذمہ دارانہ اور گمراہ کن بیان کی مذمت کی بلکہ یہ بھی الزام لگایا کہ اس طرح انہوں نے پاکستانی فوجیوں کی قربانیوں کی تذلیل کی ہے-

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اب فوج ملک میں منطقی اور فعال سیاسی سوچ کے عمل پر قابو رکھنے کے لئے مذہبی جماعتوں کے استعمال کی اپنی پرانی پالیسی کو ترک کر دے گی، لیکن کم از کم، اب فوج میں یہ شعور آہستہ آہستہ تقویت پا رہا ہے کہ کٹر مذہبی جماعتوں کی بجاۓ مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنی چاہیے-

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ماہ فوجی قیادت کی تبدیلی کے بعد بھی صورتحال یہی رہتی ہے یا نہیں-

یہ سب اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فوج اب اس طرح کی جماعتوں کے لئے اپنی حمایت پر نظر ثانی کر رہی ہے، لیکن، یہ سب تب ہوا جب کئی دہائیوں کی خفیہ حمایت کے بعد یہ عناصر خود فوج کے لئے وبال جان بن گئے-

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں