ڈرون حملوں کی مذمت میں سنجیدہ ہیں، نواز

وزیر اعظم نواز شریف۔ فائل فوٹو
وزیر اعظم نواز شریف۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیر اعظم محمد نواز شریف نے موجودہ حکومت دوہرے معیار والی حکومت نہیں ہے، ڈرون حملے پاکستان کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے، پاکستان کے احتجاج کو رسمی قرار دینا درست اور مناسب نہیں، ملکی سلامتی اور معیشت پر کسی طور سیاست نہیں ہو گی۔

جمعہ کو وژن 2025ء اور آئندہ پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے سے متعلق قومی مشاورتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بعض میڈیا رپورٹس کی سخت سے تردید کی جس کے مطابق حکومت ڈرون حملوں کی مذمت میں سنجیدہ نہیں اور کہا کہ تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے مذاکرات کی پاکستانی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا۔

کہا کہ ہم دل سے کہتے ہیں ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں، موجودہ حکومت دوہرے معیار والی حکومت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ہنگوں میں ایک مدرسے پر کیے گئے ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے ایک اہم رکن سمیت 6 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

نواز شریف نے کہا کہ میں نے امریکی صدر بارک اوباما کو بھی بتا دیا کہ ڈرون حملے قابل قبول نہیں، یہ پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے احتجاج کو رسمی کہنا درست اور مناسب نہیں ہے، ڈرون حملے پاکستان کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ راولپنڈی میں ہونے والے سانحے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ واریت، دہشت گردی اور شدت پسندی کے فروغ کے لیے استعمال ہونے والے لاؤڈ سپیکر بند ہونے چائیں اور ایسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیے نشان عبرت بن سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہندوستان، افغانستان، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور پر امید انداز میں کہا کہ 2025ء تک یہ خطہ بہترین خطہ بن سکتا ہے۔

وزیر اعظم نے تقریر کے دوران سیکیورٹی مسائل پر خصوصی طور پر بث کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی کے مسائل کی وجہ سے ہی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں آنے سے کتراتے ہیں، ہمیں اب یہ سوچنا ہوگا کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی اور اس نوبت تک پہنچانے والوں میں سے کسی کو ہم نے ذمہ دار بھی ٹھہرایا یا نہیں۔

نوز کا کہنا تھا کہ ایسا قانون بننا چاہیے کہ مجرموں کو 14 دن میں سزا ملے، یہاں پر مقدمات کے کئی کئی سال فیصلے نہیں ہوتے، کراچی میں ہزاروں مجرم پکڑے گئے ہیں لیکن اگر انہیں سزائیں نہیں ملیں گی تو مجرم دندناتے پھریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں بھی یہ ترمیم ہونی چاہئے کہ ایسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب مجرموں کی ضمانت اور رہائی نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم نے ایک قانون بنایا ہے جس کے تحت مجرموں کا ٹرائل کسی ایک شہر سے دوسرے شہر یا صوبے میں بھی ہو سکتا ہے اور جج ماسک پہن کر بھی سماعت کر سکتے ہیں'۔

معاشی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں معیشت کی حالت بہتر بنانے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے پر بھی بحث کیلئے تیار ہیں لیکن کہا کہ ملکی معیشت اور سلامتی پر کوئی سیاست نہیں ہوگی، ہم نے معیشت کے استحکام کے لیے اکھاڑ پچھاڑ کی سیاسی ختم کر دی ہے۔

انہوں نے دو ٹوتوک الفاظ میں کہا کہ توانائی کے بحران کا مسئلہ راتوں رات حل نہیں ہوگا اس کے مستقل حل کے لیے کم ازکم چار سال درکار ہوں گے، ہم بجلی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم نہیں اسے مکمل ختم کرنا چاہتے ہیں۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سے آگے کا بھی سوچنا ہے کیونکہ آئندہ دس سال کے دوران جب بجلی کی طلب 20 سے 30 ہزار میگا واٹ بڑھے تو اسے بھی پورا کرنا ہو گا۔ بجلی کے حوالے سے حکومتی منصوبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم نے دیامیر بھاشا اور داسو ڈیموں پر اکھٹے کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان دونوں منصوبوں سے 9 ہزار میگا واٹ جبکہ بونجی ڈیم سے 7 ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی، تینوں منصوبوں سے مجموعی طور پر 16 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔

'گردشی قرضے کی مد میں ہم نے جو 500 ارب روپے ادا کئے اسی کی وجہ سے سسٹم میں 1700میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہوا ہے لیکن اس پر بھی ہم ستائش نہیں چاہتے'۔

وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ 26 نومبر کو کراچی میں سول نیوکلیئر پلانٹ کا افتتاح کیا جائے گا جس سے 2117 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی اور اسی دن کراچی میں کاروباری طبقے کے لیے ترغیبات کا بھی اعلان کیا جائے گا۔

اس موقع پر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، آزاد جموں وکشمیر کے وزیر اعظم، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، ارکان پارلیمنٹ اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں