کسی بھی مسلم فرقے کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا: مولانا اشرفی

25 نومبر 2013
مولانا طاہر اشرفی نے فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے چودہ نکاتی ضابطہ اخلاق اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیا ہے۔ —. فائل فوٹو
مولانا طاہر اشرفی نے فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے چودہ نکاتی ضابطہ اخلاق اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیا ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا حافظ محمد طاہر اشرفی نے ملک میں مذہبی تنظیموں کے فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے چودہ نکات پر مشتمل ضابطہ اخلاق پیش کیا ہے۔

کل بروز اتوار اسلامی نظریاتی کونسل کو مولانا نے یہ چودہ نکاتی ضابطہ اخلاق، غوروخوض کے لیے خصوصی اجلاس کی طلبی کی ایک درخواست کے ساتھ ارسال کیے۔

اس ضابطہ اخلاق میں تمام مذہبی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر تشدد سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی مسلم فرقے کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں توہین رسالت میں کسی بھی قسم کی ترمیم کی مذمت کی گئی ہے۔

مولانا اشرفی نے ڈان کو بتایا کہ ”ہم نے دیکھا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اگر اس سے اتفاق کرلیتی ہیں تو شیعہ کمیونٹی کے بہت سے رہنما بھی اس ضابطہ اخلاق سے متفق تھے، سانحہ راولپنڈی کے بعد مولانا احمد لدھیانوی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کوئی ضابطہ اخلاق تیار کرتی ہے تو اس کے کچھ نکات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔“

”یہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف معاملات میں قرآن و سنت کی روشنی میں حکومت کی رہنمائی کرے۔“

مولانا اشرفی نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیے گئے خط میں کہا ہے کہ ”حکام کی جانب سے کی جانے والی متعدد کوششوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں ملک فرقہ واریت کی وجہ سے دھماکہ خیز صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔“

مجوزہ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت بشمول ان کی قابلِ احترام ازواج اور امام مہدی کے بارے میں قابل اعتراض تبصرے کرتا ہے تو اس کو اسلامی عقیدے سے مرتد قرار دے دینا چاہئیے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی تقریر اور تحریری مواد کوروکا جائے جو کسی دوسرے فرقے کے لیے ناپسندیدہ ہو یا نفرت پر اکساتا ہو۔

ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کی ریکارڈنگز اور انہیں کسی بھی ذریعے سے پھیلانے پر پابندی ہونی چاہیٔے۔

مذہبی گروہوں کی طرف سے نفرت کی ترغیب پر مبنی یا تشدد کی آگ کو بھڑکانے والے کسی بھی نعرے سے گریز کرنا چاہیٔے اور تمام فرقوں کو چاہیٔے کہ وہ دوسروں کی عبادت گاہوں اور روایات و اقدار کا احترام کریں۔

ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ تمام مذہبی اجتماعات اور مذہبی مقامات پر اسلحےخصوصاً غیرقانونی اسلحے کی نمائش پر پابندی ہونی چاہیٔے۔

مجوزہ ضابطہ اخلاق میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ تقاریر، خاص طور پر جمعہ کی نماز کے دوران کی جانے والی تقاریر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو فروغ دینا چاہیٔے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ ایسے سیمناروں کا انعقاد کیا جائے جس میں مذہبی علماء اپنے خطاب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیں۔

اس میں اختلافات کے حل کے لیے مختلف فرقوں کے مذہبی علماء پر مشتمل ایک بورڈ کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

مولانا طاہر اشرفی نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ضابطہ اخلاق حکومت کی جانب سے نافذ کیا جائے گا، جسے تشدد کرنے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹنا چاہیٔے۔

اس خط میں اسلامی نظریاتی کونسل سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کی حرمت پامال کرنے والے عناصر کے خلاف سخت اقدامات اُٹھائے۔

مولانا نے کہا کہ اس طرح کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ملک میں قوانین موجود تھے، لیکن یا تو نرم تھے یا پھروہ سزا کے لیے ناکافی تھے۔

”پاکستان میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن برقرار رکھنے جیسی غیرمعمولی طور پر اہم ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔“

ایسی ہی ایک کوشش 1990ء کے وسط میں ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے میں سپاہ صحابہ محمد کی تشکیل کے بعد سامنے آئی تھی، جس کی ایک شاخ اب علامہ ساجد نقوی کی قیادت میں کالعدم تحریک جعفریہ کے نام سے موجود ہے۔

مولانا اشرفی ملی یکجہتی کونسل کے بانی اراکین میں سے ایک تھے۔

مولانا نے بتایا کہ ”میں نے کوشش کی تھی کہ کالعدم سپاہِ صحابہ کی قیادت ملی یکجہتی کونسل میں شمولیت اختیار کرلے اور تشدد کا راستہ ترک کردے، اور وہ اس پر رضامند تھے۔“

”یہی وقت ہے کہ مذہبی علماء آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں، دوسری صورت میں تاریخ انہیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھے گی۔“

مختلف فرقوں اور مذہبی گروں کے رہنماؤں نے اس ضابطہ اخلاق کا اچھی طرح مطالعہ کیے بغیر اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں