سرینگر میں تعینات ایک ہندوستانی فوجی -- فائل فوٹو --.

پچھلے ماہ، سرینگر میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد مجھے شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہوا کہ کشمیر کا سیاسی عمل ہر لحاظ سے ایک بند گلی میں داخل ہو چکا ہے-

یونینسٹ جماعتیں، وزیر اعلیٰ عمر عبدالله کی قیادت میں حکمران نیشنل کانفرنس (این سی) اورسابقہ وزیر اعلیٰ مفتی محمّد سعید کی حزب مخالف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) گفت و شنید نہیں چاہتے- این سی کی اتحادی پارٹنر، کانگریس گروہ بندی کا شکار ہو گئی ہے- اسٹیٹ کانگریس کے چیف پروفیسر سیف الدین سوز کے لئے یونین منسٹر غلام نبی آزاد ہر مرحلے پر رکاوٹ بنتے ہیں، جو اپنے دھڑے کی ڈور دہلی سے کھینچ رہے ہیں-

علیحدگی پسند ناامید ہو کر تقسیم ہو چکے ہیں- ان کے دو رہنما، سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ مولوی عمر فاروق آپس میں بھڑے بیٹھے ہیں- گیلانی نے ایک مرتبہ یونائیٹڈ آل پارٹیز حریت کانفرنس میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کی تھی- گزشتہ کچھ سالوں میں انکی منزلیں دور ہو گئی ہیں-

تئیس اپریل کو جماعت کے امیر محممد عبدالله ونی نے چبھتے ہوے انداز میں یہ کہا کہ "جماعت کو اس بات کی خبر ہے کہ لوگوں کے کیا مسائل ہیں اور یہ جانتی ہے کہ کونسی جماعت الیکشن کے بائیکاٹ سے فائدہ اٹھاتی ہے اور آئندہ انتخابات میں حصّہ لینے کے حوالے سے حتمی فیصلہ مجلس شوریٰ میں ہوگا -" یہ 2008 کے انتخابات میں این سی کے سرینگر میں چند اھم نشتوں پر قبضہ کرنے کی طرف اشارہ تھا، جس کے ذریعہ اس نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا- گیلانی کے انتخابات بائیکاٹ کی وجہ سے یہ نشستیں این سی نے جیت لی تھیں- وہ وہی کھیل دوبارہ کھیل رہا ہے-

یہی وقت ہے اسمبلی کی پنج سالہ مدّت کی بحالی کے مطالبے کا- 1976 میں، ہنگامی حالات میں، اندرا گاندھی نے آئین میں بیالیسویں ترمیم کا نفاز کیا تھا- جس میں لوک سبھا اور ریاستی اسسمبلیوں کی مدّت پانچ سال سے بڑھا کر چھ سال کر دی گئی تھی- 1977 میں اندرا گاندھی کی انتخابات میں شکست کے بعد جنتا پارٹی کی گورنمنٹ نے 1979 میں آئین میں چوالیسویں ترمیم کے ذریعہ تمام مجالس قانون ساز، مرکزی اور ریاستی، کی مدّت واپس پانچ سال کر دی تھی-

اس دوران، شیخ محمد عبدالله نے فروری 1977 میں، ریاست کے آئین میں ترمیم کر کے ریاستی اسمبلی کی مدّت چھ سال تک بڑھا دی تھی- حالانکہ وہ اقتدار میں اپنے انتقال (1982) تک رہے لیکن انہوں نے پانچ سالہ مدّت کو بحال نہیں کیا-

یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا کوئی بھی علیحدگی پسند جماعت آیندہ سال ریاستی انتخابات میں حصّہ لے گی؟ این سی کا حوصلہ پست ہو چکا ہے- عمر عبدالله وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے شاندار ناکامی کا ثبوت دے چکے ہیں چاہے وہ منتظم ہوں، قانون ساز، یا پھر سیاست دان کی حیثیت سے- انکا فلسفہ حیرت انگیز طور پر بچکانہ ہے- پی ڈی پی اقتدار میں آنے کے لئے جان توڑ کوششیں کر رہی ہے لیکن وہ دہری مشکل میں پھنس گئی ہے- یہ این سی کے مقابلے میں عوامی جذبات کی طرف زیادہ حساس ہے، لیکن یہ مرکز کی حمایت کھو دینے کے ڈر سے پورے بھارت کی طرف سے زبردست عوامی بیگانگی کے رویےکو تسلیم نہیں کر سکتے-

نہ تو این سی اور نہ ہی پی ڈی پی، کانگریس کی حمایت کے بغیر اقتدار میں آسکتی ہیں (اس کے لئے پڑھیے : نیو دہلی سپورٹ) - وادی میں کانگریس کی حیثیت واجبی سی ہے لیکن جموں کے ووٹ مل جانے پر یہ بادشاہ گر بن کر ابھرتا ہے-

سوز بے اعتبار کانگریس میں نئی روح پھونکنے سے قاصر ہیں- 9 مئی کو وہ جماعت کی صدر سونیا گاندھی سے ملے " کابینہ کے تین سینئر وزرا کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کے لئے جنہوں نے مبینہ طور پر ذاتی مفادات کے لئے اپنی سرکاری حیثیت کا غلط استعمال کیا -" سرینگر کے ایک روزنامے، دی گریٹر کشمیر نے اس حوالے سے یہ نام دیے ہیں، ڈپٹی چیف منسٹرتارا چند، میڈیکل ایجوکیشن منسٹر تاج محی الدین اور منسٹر آف اسٹیٹ کوآپریشن ڈاکٹر منوہر لال شرما-

عمرعبدالله اس اتحادی دباؤ کی وجہ وزیر علیٰ کی حیثیت سے اپنی غفلت قرار دیتے ہیں کہ وہ ان لوگوں اپنی وزارت سے نکال نہ سکے- 20 مئی کو انہوں نے عالمی نفرت کا نشانہ بننے والے قانون کے لئے بھی یہی بہانہ تراشا، وہ قانون تھا: مسلح فوجوں کے لئے خصوصی اختیارات کا ایکٹ، جس کے تحت اصل میں انہیں ماوراۓ قانون قتل کی کھلی چھٹی مل گئی تھی- سوز نے وزیر اعلیٰ کی اس چال کو یہ تجویز پیش کر کے چیلنج کیا "جیسا کہ سیکورٹی کی صورت حال اب بہتر ہو گئی ہے لہٰذا اب وزیر علیٰ کو مخصوص علاقوں سے یہ قانون منسوخ کرنے کے لئے پیش قدمی کرنا ہوگی- عمر عبدالله اپنے تحت آنے والے متحدہ ہیڈ کوارٹرز کی ملاقات منعقد کر کے ایسا کر سکتے ہیں، جس میں وہ تمام عھدیداروں کو اعتماد میں لے کر یہ قانون منسوخ کر سکتے ہیں-"

ہر طرف سے انتخابات سے پہلے ایک وقفے کا منظر پیش کیا جا رہا ہے- سوز، وزیر اعظم من موہن کی ملاقات کے لئے عوامی جوش و خروش کی جان توڑ کوششیں کر رہے ہیں- ماضی کی طرح ان کے لئے یہ تعطل ختم کرنا ممکن نہیں لگتا-

وزیر اعلیٰ کا 2004 سے انڈیا-پاکستان امن کوششوں کا ریکارڈ قابل تعریف ہے- اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے واقعات کے بعد، انہوں نے اس عمل کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں کی ہیں- پوری طرح موازنہ کرنے پر، داخلی محاذ پر انکا ریکارڈ مایوس کن ہے- اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ، پی- چدم برم اور غلام نبی آزاد، جیسے سخت گیروں کی خواہشات کو پورا کرتے رہے- ورکنگ گروپ کی تجاویز، کل جماعتی گول میز اجلاس جن کا انہوں نے انقعاد کیا، نظر انداز کر دئے گۓ- دو کام جو خصوصاً قابل ذکر ہیں: ریاست میں معاشرتی طبقات کے درمیان اعتماد سازی کے لئے ورکنگ گروپ اور لائن آف کنٹرول کے پار تعلقات مستحکم کرنے کی کوششیں- انکی قیادت، بالترتیب، انڈیا کے موجودہ نائب صدر محمد حامد انصاری اور سابقہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری ایم. کے. رسگوترا نے کی -

مذاکراتی گروہ، افسران اور دیگر، کو ڈھیل دے دی گئی- مزاکراتیوں کا آخری گروہ جو کہ دلیپ پدگاونکر، رادھا کمار اور ایم.ایم. انصاری پر مشتمل تھا، واجب طور پر علیحدگی پسندوں کی طرف سے نظر انداز کر دیا گیا- بالکل اسی وجہ سے انہوں نے گول میز اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا- مرکز کے پاس کشمیر کے داخلی تنازعہ کے حل کے لئے کوئی واضح اور قابل عمل تجاویز نہیں تھیں- ان کا ریاست کے اختیارات واپس کرنے، جابرانہ قوانین منسوخ کرنے، اور انسانی حقوق کی پامالی ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا- اس میں پیشرفت کی واحد امید انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس تنازعہ پر کسی مفاہمت کے قیام سے وابستہ ہے-


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں