اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں فریقین کی متفرق درخواستوں پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے فریقین کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی آئی بی اور چیئرمین پی ٹی اے کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کیس میں بینچ سے الگ ہونے کی پیمرا، پی ٹی اے، آئی بی اور ایف آئی اے کی متفرق درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایف آئی اے، آئی بی اور پی ٹی اے کی جانب سے بینچ سے الگ ہونے کی متفرق درخواستوں میں یکساں موقف اپنایا گیا ہے، ان تینوں اداروں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ آڈیو لیکس کیس کی سماعت کرنے والے جج نے سپریم کورٹ کو ایگزیکٹو کی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے خط لکھا ہے اور آئی ایس آئی پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ آئی بی اور ایف آئی اے دو مختلف ادارے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان دونوں اداروں کی درخواستیں لفظ با لفظ ایک جیسی ہیں، دونوں اداروں نے اپنی متفرق درخواستوں میں لارڈ ڈیننگ کا ایک ہی قول بھی نقل کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا کہ پی ٹی اے کی جانب سے دائر درخواست میں جواز پیش کیا گیا کہ چونکہ آڈیو لیکس کیس کی سماعت کرنے والے جج ماضی میں ٹیلی کام کمپنیوں کے وکیل رہ چکے ہیں اس لیے انہیں کیس نہیں سننا چاہیے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ پیمرا کی جانب سے دائر متفرق درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا بینچ نمبر دو اسی نوعیت کے کیس پر فیصلہ دے چکا ہے لہٰذا یہ کیس بھی اسی بینچ کو منتقل کیا جائے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کہ خط میں لکھے گئے واقعات کا آئی بی سے کوئی تعلق ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا، ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی امجد اقبال سے پوچھا گیا کہ آئی بی کو کس نے درخواست دائر کرنے کی اجازت دی تو انہوں نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ ان کو جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی طارق محمود نے درخواست دائر کرنے کیلئے کہا اور اجازت دی۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی طارق محمود بھی آئندہ سماعت پر پیش ہوں اور عدالت کو بتائیں کہ ان کو کس نے درخواست دائر کرنے کے لیے کہا۔

عدالت نے کہا کہ پیمرا، آئی بی، پی ٹی اے اور آئی بی کی متفرق درخواستیں بدنیتی پر مبنی اور بغیر کسی قانونی جواز کے ہیں، یہ درخواستیں جج پر کیس نہ سننے کے حوالے سے دباو ڈالنے کے لیے دائر کی گئی ہیں۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت اور اس کے ادارے آڈیو لیکس سے متعلق عدالت کے سوالات اور تحفظات کے جوابات دینے سے بھاگ رہے ہیں لہٰذا عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پیمرا، پی ٹی اے، آئی بی اور ایف آئی اے کی بینچ سے الگ ہونے سے متعلق متفرق درخواستیں بدنیتی پر مبنی ہیں اور جج کو کیس سے الگ ہونے پر اکسانے کے لیے دائر کی گئی ہیں۔

عدالت نے تحریری حکمنامے میں کہا کہ چاروں اداروں کی متفرق درخواستیں مسترد کرتے ہوئے پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے اور آئی بی، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی آئی بی کے بیان حلفی کے ساتھ رپورٹ پیش کریں اور بتائیں کہ متفرق درخواستیں دائر کرنے کی اجازت کس نے دی۔

عدالت نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی آئی بی اور چیئرمین پی ٹی اے اور پی ٹی اے ممبران کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے اور یہ لوگ بتائیں کہ عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کے لیے مل کر متفرق درخواستیں دائر کرنے پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیوں نہ کیا جائے؟

عدالت اب 29 مئی کو مقدمے کی سماعت کرے گی۔

یاد رہے کہ ڈان نیز کی رپورٹ کے مطابق 27 اپریل کو کو آڈیو لیکس کیس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی تھی۔

آڈیو لیکس کیس میں پیمرا، پاکستان ٹیلی پی ٹی اے، ایف آئی اے اور آئی بی نے متفرق درخواستیں دائر کردیں تھیں۔

ان چاروں اداروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ اسی نوعیت کے دوسرے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اور بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جسٹس بابر ستار سماعت سے معذرت کرلیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں