اپنا الگ راستا

26 نومبر 2013
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، فائل فوٹو۔۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، فائل فوٹو۔۔۔۔

ڈرون کی سیاست بدستور گرم ہورہی ہے اور ہمیشہ کی طرح احتجاج کے اس محاذ پر سب سے آگے کھڑے ہیں عمران خان۔

کم از کم اس وقت دو باتیں تو مناسب طور پر بالکل واضح ہیں: اول یہ کہ ملکی سیاست بدستور ڈرون سے دامن الجھاتی رہے گی جس کا مطلب ہے کہ عسکریت پسندی کے خطرے پر سے کسی بھی قسم کی توجہ بٹ چکی۔ دوسرا یہ کہ اس کی شدت میں مزید کمی آسکتی ہے لیکن یہ حملے بند بالکل نہیں ہوں گے۔

یہ صورتِ حال ایک بنیادی سوال چھوڑتی ہے: تواب کیا ہوگا؟ احساس یہ ہے کہ شاید وہ کناروں سے بہت دور جاچکے، خود پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی اپنے حالیہ احتجاج میں بہت کم گنجائش باقی چھوڑی ہے۔ نہ تو پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت اس میں شامل ہوئی اور نہ ہی اس نے مکمل طور پر نیٹو سپلائی روکنے کے لیے کوئی صاف اشارہ دیا ہے۔

اگرچہ اب وہ اقتدار کی حقیقتوں سے آشنا ہوچکی مگر پھر بھی پی ٹی آئی متواتر اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنے کا دعویٰ کررہی ہے تو ایسے میں یہ صورتِ حال اسے کس بات کی اجازت دیتی ہے۔ جیسا کہ ملک نے سلالہ واقعے کے بعد سپلائی روٹ کی بندش سے سبق سیکھا کہ امریکا ڈرون حملے تو شاید پھر بھی کرے گا لیکن سپلائی روٹ وسیع عالمی اتحادی افواج کی خدمات انجام دیتا ہے۔

پی ٹی آئی بھی ماضی کی اُن تمام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی طرح سامنے آئی ہے جو جانتی ہے کہ بیرونی دنیا پاکستان پر ڈرون حملوں کی شکایات میں شراکت تو نہیں کرے گی لیکن اس الزام تراشی کے کھیل میں عسکریت پسندوں کو اپنے واسطے کھلا راستا مل جائے گا۔

فطری طور پر پی ٹی آئی اپنی ہی سوچ کی راہ پر تنہا چل کر، اب تک عسکریت پسندی کو شکست دینے میں ناکام ہے تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ پاکستان کو ڈرون سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

ڈرون حملوں کی خیبر پختون خواہ کے سیٹلڈ ایریاز تک توسیع ایک خطرناک علامت ہے۔ جب کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا ہاتھ ٹرائیگر پرہو، جیسا کہ ان حملوں کا اختیار سی آئی اے کو سونپا جاچکا، اسی طرح کی تباہی پھیلتی ہے۔

ناقابلِ رسائی فاٹا کے علاقے ایک چیز ہے اور سرزمینِ پاکستان پر واقع صوبے کے سیٹلڈ ایریا دوسرے زمرے میں آتے ہیں۔ یقینی طور پر یہاں یہ دلیل نہیں دی جاسکتی کہ بنیادی طور پر پاکستان ہنگو میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کا اہل نہیں؟

یہاں پاکستان کی سول و فوجی قیادت اور حکومت کی یہ مجموعی ناکامی ہے کہ وہ ڈرون مسئلے سے نمٹنے کی خاطر کسی جامع پالیسی کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں۔

اب یہ واضح ہوچکا کہ کم از کم سن دو ہزار چوبیس تک امریکی فوجی دستے افغنستان میں ہی موجود رہیں گے، ایسے میں بمشکل ہی ڈرون کا مسئل حل ہوپائے گا۔

علاوہ ازیں، اگر یہ پاکستانی قیادت کی ناکامی ہے جو کہ بدستور ناکام ہیں، تو اس کے ساتھ ساتھ اوباما انتظامیہ بھی اپنے طویل المعیاد مفادات کے بجائے قلیل المعیاد مقاصد پر پوری توجہ مرکوز رکھنے کی بھی ذمہ دار ہے۔

ایک ایسے ملک میں جو خود عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں محاذ پر کھڑا ہے وہاں صرف چند ایسے عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر کہ جنہیں باآسانی تبدیل کیا جاسکتا ہے، امریکا مخالف شدید جذبات کیوں بھڑکائے جائیں؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں