افغان امن عمل کیلئے وزیرِ اعظم کا پہلا دورہ افغانستان

28 نومبر 2013
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔۔
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔۔

اسلام آباد: پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ہفتہ کے روز افغانستان کا دورہ کریں گے جہاں وہ افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کریں گے، ان کا یہ دورہ افغانستان میں امن عمل کی بحالی کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔

ان کا یہ ایک روزہ دورہ جس کی تصدیق پاکستان کی وزارت خارجہ نے کی ہے. شریف کی افغان اعلٰی امن شوریٰ سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں دو ہزار چودہ کے بعد نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ابتداء کا کام سونپا گیا ہے۔

کرزئی نے واشنگٹن کے ساتھ ایک سیکورٹی معاہدے پر رضامندی ظاہر کی ہے جس کے تحت افغانستان میں امریکی دستے افغان فوجیوں کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لئے افغانستان میں رہیں گے۔

تاہم کرزئی نے اس معاہدے پر اب تک دستخط نہیں کئے ہیں اور وہ یہ معاملہ اگلی منتخب حکومت پر چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ کا اصرار ہے کہ اس کی افواج کو 2014 کے انخلا کے بعد افغانستان میں رکھنے کیلئے یہ معاہدہ بہت ضروری ہے۔

پاکستان 1996-2001 میں طالبان حکومت کی حمایت اور امداد کرتا رہا تھا تا ہم نیٹو افواج کی افغانستان آمد کے بعد بد امنی پھیل گئی، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہوچکے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے افغان طالبان کے سابق دوسرے اہم رہنما کو رہا کردیا ہے،جبکہ کابل امن عمل کی مدد کے لئے عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے لیکن عسکریت پسندوں کے ذرائع نے شکایت کی ہے کہ ملا برادر ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ اعلی امن کونسل نے اپنے دورہ پاکستان میں ان سے ملاقات کی تھی یا نہیں۔

تاہم ذرائع ابلاغ کے کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اعلٰی امن کونسل کے وفد نے ملا برادر سے ملاقات کی تھی۔

وزیر اعظم نواز شریف کا اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہو گا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم صدر حامد کرزئی سے مشترکہ مفادات کے معاملات پر بات چیت کریں گے اور دونوں رہنما افغانستان میں امن اور مفاہمتی عمل پر بھی گفتگو کریں گے ۔

طالبان نے صدر حامد کرزئی یا اعلٰی امن کونسل کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنے سے انکار کر دیا ہے اور انھیں امریکی کٹھ پتلیاں قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

طالبان نے جون میں قطر میں اپنا دفتر کھولا تھا لیکن کرزئی کے خدشات کے پیش نظر اسے بند کر دیا گیا کرزئی نے طالبان کے نام اور اس کے جھنڈے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان اس دفتر کو بطور سفارت خانے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ لندن میں منعقد جنوبی ایشیا میں استحکام کو فروغ دینے کے حوالے سے سہ فریقی اجلاس میں کرزئی اور نواز شریف نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں