”پی ٹی آئی جلد یا بدیر احتجاج ختم کردے گی“

02 دسمبر 2013
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ اس کی احتجاجی مہم کے اثرات قومی معیشت پر پڑیں گے۔ —. فوٹو رائٹرز
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ اس کی احتجاجی مہم کے اثرات قومی معیشت پر پڑیں گے۔ —. فوٹو رائٹرز

پشاور: شمالی بحراوقیانوس معاہدے کی تنظیم، نیٹو کی سپلائی کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی مہم کا اثر واشنگٹن تک تو نہیں پہنچ سکا کہ وہ پاکستان پر اپنے ڈرون حملے روک دیتا، لیکن عمران خان کی قیادت میں پارٹی نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو خیبر پختونخوا کے اس احتجاج کے ذریعے آگے ضرور بڑھایا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی نے نیٹو سپلائی روکنے کے لیے احتجاجی کیمپ لگا کر ایک تیر سے دو شکار کیا ہے، ایک تو اس نے خود کو وفاقی حکومت کے سامنے سودے بازی کی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے، دوسرے خود کو خیبر پختونخوا کی ایک مؤثر سیاسی قوت ثابت کردیا ہے۔ؕ

اسلام آباد کے سیاسی مبصر ایمل خٹک نے کہتے ہیں ”پاکستان تحریک انصاف کی زیادہ تر توجہ پنجاب پر مرکوز رہی ہے، لیکن اس کی بنیادیں خیبر پختونخوا میں ہیں، اس نے وفاقی حکومت پر تنقید کرکے پاکستان مسلم لیگ نون پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔“

پشاور یونیورسٹی کے شعبے پولیٹیکل سائنس کے چیئرمین ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ عالمی اہمیت کے معاملے پر پی ٹی آئی کے وفاقی حکومت کے مدمقابل آنے کے اس فیصلے نے اس کو قومی سیاسی منظرنامے میں اہم سیاسی کھلاڑی تسلیم کروانے میں مدد دی ہے، خیبر پختونخوا میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ سیاست سے باہر ہوتی جارہی تھی۔٫

انہوں نے کہا کہ ”خارجہ پالیسی کے معاملے پر پی ٹی آئی کا مؤقف نے اس کی وسیع تر سیاسی بنیادوں پر کثیرالجہتی مقاصد کے حصول میں مدد کی ہے۔ اب وہ وفاقی حکومت کے سامنے ون ٹو ون مذاکرات کی پوزیشن میں آچکی ہے اور اس کے سیاسی قد وکاٹھ میں اضافہ ہوچکا ہے۔“

نیٹو سپلائی کو روکنے کے لیے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے احتجاجی کیمپ اب بھی قائم ہیں، جس سے صوبے کے دیگر حصوں سے آنے والی نیٹو کی رسد رُکی ہوئی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے صوبائی رہنماؤں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ احتجاجی کیمپ کب یہاں سے ختم کیے جائیں گے۔

پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے نائب صدر ڈاکٹر ندیم نے کہا کہ ”ہمارے پاس کارکنوں کی کمی نہیں اور ہم ان کیمپوں کو طویل عرصے تک قائم رکھ سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم یہاں سالوں تک بیٹھے رہیں گے۔“

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ احتجاجی کیمپ کو جاری رکھنا یا ختم کرنے کا فیصلہ پارٹی کی مرکزی قیادت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ”جیسا کہ آج یہ کیمپ غیرمعینہ مدت کے لیے لگائے گئے ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہمیں قومی خودمختاری کے معاملے پر دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ لینا ہوگا۔“

ڈاکٹر ہلالی نے کہا کہ پی ٹی آئی جلد یا بدیر ان احتجاجی کیمپوں کو ختم کردے گی۔

ایمل خٹک محسوس کرتے ہیں کہ ان کیمپوں کو ختم کرنے کا فیصلہ مختلف وجوہات کی بنا پر سامنے آئے گا۔

ایمل خٹک نے کہا ”سب سے پہلے تو اس طرح کے احتجاجی کیمپوں کو طویل عرصے تک قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، اور اس کا مشاہدہ ان کیمپوں میں حصہ لینے والے افراد کی روزانہ کی تعداد کو دیکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔“

”اسی طرح نیٹو سپلائی مکمل طور پر بند نہیں ہوسکی ہے، اس لیے کہ وہ کوئٹہ کے راستے سے مسلسل جاری ہے۔“

ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی احتجاج ختم کردے گی، اس لیے کہ وہ پہلے ہی بہت کچھ حاصل کرچکی ہے، اوراس کو مزید جاری رکھنے سے اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کو یہ احساس ہے کہ اس کی مہم کے معاشی اثرات قومی معیشت پر پڑیں گے، اگر نیٹو سپلائی خیبر پختونخوا کے راستے طویل عرصے تک بند رہی تو آئی ایم ایف اس معاملے میں کود سکتا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان نیٹو کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے یورپین یونین سے قابل ذکر امداد حاصل کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح یہ احتجاجی مہم کراچی سے طورخم تک نیٹو سپلائی کے کاروبار سے جُڑے ہوئے چھتیس ہزار سے چالیس ہزار کارکنوں، تاجروں، کاروباری افراد کے معاشی مفادات کو براہِ راست اور بالواسطہ طور پر متاثر کررہی ہے۔

عوامی ناراضگی کا عنصر پہلے ہی خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے لیے ایک تلخ حقیقت بن چکا ہے، جو اس مشکل سے نکلنا چاہتے ہیں۔

ہفتے کے روز پشاور سے تعلق رکھنے والے ٹرک مالکان کا ایک وفد جو نیٹو سپلائی کی بندش سے متاثر ہے، پشاور پی کے-6 سے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی فضل الٰہی سے ملاقات کرچکا ہے، وفد کے ارکان نے اپنی پریشانیوں سے انہیں آگاہ کیا تھا۔

فضل الٰہی نے کہا ”میں نے ان کی شکایات سننے کے بعد ان سے کہا کہ اللہ تعالٰی ان کا رازق ہے، لہٰذا انہیں امریکا کی طرف نہیں دیکھنا چاہیٔے۔“

”اللہ تعالٰی نے ہمیں ایک سچا رہنما (عمران خان) دیا ہے، لہٰذا اب انہیں اس پر بھروسہ کرنا چاہیٔے۔“

یہ وفد فضل الٰہی کے ساتھ سبز چائے پینے کے بعد رخصت ہوگیا۔

تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاجی کیمپوں سے دباؤ میں آکر امریکا ڈرون حملے روک دے گا۔

انہوں نے کہا کہ ”ان کے (نیٹو) فوجیوں کے لیے غذا کی فراہمی میں کمی آئے گی تو وہ ہمارے بات سننے کے لیے تیار ہوں گے۔“

احتجاجی کیمپ جاری رکھنے کی کوشش سے پی ٹی آئی میں پہلے ہی تناؤ پیدا ہونا شروع ہوچکا ہے۔ چنانچہ خیبر پختونخوا کے چار ضلعوں پشاور سمیت ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور چار سدہ میں قائم احتجاجی کیمپوں میں اپنے کارکنوں کی قابل عزت تعداد کی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے پی ٹی آئی نے اپنی حکمت عملی تبدیلی کی ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے کے مطابق نیٹو سپلائی کو روکنے کے لیے قائم کیے گئے احتجاجی کیمپوں کے ابتدائی دنوں میں کارکنوں کا انتظام پشاور میں انتخابی حلقوں کی بنیاد پر کیا جاتا تھا، اب یہ حکمت عملی تبدیل کردی گئی ہے۔

جب ان سے حکمت عملی سے متعلق پوچھا گیا تو فضل الٰہی نے کہا ”پشاور کے حیات آباد ٹول پلازہ کیمپ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر پانچ یونین کونسلوں سے کارکنوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس معاملے کو یونین کونسل کی سطح پر منتقل کردیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ایم پی اے نے بتایا کہ یونین کونسل کی بنیادوں پر پی ٹی آئی کے چیپٹرز کےصدر اور جنرل سیکریٹریز، دو سے پانچ کارکن کیمپ پہنچتے ہیں۔

ڈاکٹر ہلالی یقین رکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کا مظاہرہ کرکے اس پارٹی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرادیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”آج ان کا احتجاج اور نیٹو سپلائی کی بندش کو عالمی میڈیا پر پیش کیا جارہا ہے۔“

ڈاکٹر ہلالی نے کہا کہ اس پارٹی نے خود کو اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ وفاقی حکومت شرائط کے بدلے میں یہ یقین دہانی چاہے گی کہ پی ٹی آئی اس کے اختیارات میں رکاوٹ نہ بنے۔

تبصرے (0) بند ہیں