مختلف مسالک کے مذہبی پیشواؤں کا نو نکاتی ضابطۂ اخلاق پر اتفاق

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2013
تمام مسالک کے مذہبی پیشواؤں نے جس ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کیا اس کے مطابق اذان اور عربی زبان کے خطبات کے علاوہ لاؤڈاسپیکرز کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی اور کوئی فرقہ ایک دوسرے کو کافر نہیں کہے گا۔ —. فائل فوٹو
تمام مسالک کے مذہبی پیشواؤں نے جس ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کیا اس کے مطابق اذان اور عربی زبان کے خطبات کے علاوہ لاؤڈاسپیکرز کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی اور کوئی فرقہ ایک دوسرے کو کافر نہیں کہے گا۔ —. فائل فوٹو

لاہور: مختلف مسالک کے مذہبی رہنماؤں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے اتفاقِ رائے کے ساتھ ایک نو نکاتی ضابطۂ اخلاق پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

کل بروز پیر دو دسمبر کو پنجاب کے وزیر مذہبی امور و اوقاف عطا مانیکا کی زیرِ صدارت ایک اجلاس میں تفصیلی غور و خوض کے بعد ان مذہبی رہنماؤں نے اس ضابطۂ اخلاق پر دستخط کیے۔ یہ اجلاس تقریباً پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی نے ڈان کو بتایا کہ ”تین بڑے مسلک جن میں سے بریلوی مسلک کی نمائندگی مفتی انتخاب نوری، ، اہلِ حدیث کی ڈاکٹر عبدالغفور راشد اور اہل تشیع کی حیدر علی مرزا کررہے تھے۔اور میں نے دیوبندی مسلک کی نمائندگی کی۔“

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل میں کچھ عرصہ پہلے پندرہ نکاتی ضابطۂ اخلاق پیش کیا تھا، اور وہی نکات محکمہ اوقاف کے زیرِ اہتمام اس اجلاس میں بھی پیش کیے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شرکاء نے ان پندرہ نکات میں سے نو نکات کو قبول کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ جس ضابطہ اخلاق پر مذہبی عالموں، مذہبی پیشواؤں اور ذاکروں نے اتفاق کیا اور اس پر دستخط کیے، اس کے مطابق خلفائے راشدین کے بارے میں کسی بھی قسم کے توہین آمیز کلمات کہنے سے گریز کیا جائے گا۔ کسی بھی فرقے کے مذہبی پیشوا اور مذہبی عالم کسی کو بھی کافر قرار نہیں دیں گے اور نہ ہی کسی کو قتل کا سزاور قرار دیں گے۔

اذان اور عربی زبان میں دیے جانے والے مذہبی خطبات کے علاوہ لاؤڈاسپیکرز کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی۔ کوئی بھی فرقہ نفرت آمیز تقاریر یا تبصرے، نعرے یا ہینڈبل، کتابوں، کتابچوں یا پریس ریلیز وغیرہ کی صورت میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت نہیں کرے گا۔اس کے علاوہ ایک دوسرے کے خلاف براہِ راست یا بالواسطہ وال چاکنگ سے گریز کیا جائے گا۔

تمام فرقے مشترکہ عوامی اجتماعات کا انعقاد کرکے بین المسالک ہم آہنگی، تعاون، اتحاد اور محبت کو فروغ دیں گے۔ تمام فرقوں کے مذہبی پیشوا اور مذہبی رہنما ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور براہ راست یا بالواسطہ جذباتی ردّعمل کا اظہار کرنے کے بجائے اپنے مسائل ایک مناسب و موزوں فورم پر پیش کریں گے۔اسلحے کی نمائش کی اجازت نہیں ہوگی۔

تمام فرقے اس ذمہ داری کے پابند ہوں گے کہ وہ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے۔ وہ اس ضابطہ اخلاق کے الفاظ اور اس کی روح کی پیروی اور اس پر عملدرآمد کریں گے۔

علامہ اشرفی نے کہا کہ اس اجلاس میں ضابطۂ اخلاق کے مکمل طور پر نفاذ کے لیے نگرانی کا ایک طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔یہ فورم ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کے شرکاء نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی اس عمل میں شمولیت کے بعد ضابطہ اخلاق کو باقاعدہ قانونی شکل دی جائے گی۔ اس سلسلے میں ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ تمام فرقے قانونی طور پر اس کی پیروی کے پابند ہوں گے۔

اس ضابطہ اخلاق پر تمام مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک کے ماہر مذہبی علماء اور پاکستان علماء کونسل پہلے بھی اسی طرح کے ضابطہ اخلاق پر چند سال پہلے دستخط کرچکے ہیں، محکمۂ اوقاف تعاون سے لاہور میں گیارہ دسمبر کو تمام مسالک کے مذہبی پیشواؤں اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی ایک قومی کانفرنس کے انعقاد کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ ”اسی کے ساتھ ساتھ ہم چار دسمبر (کل بروز منگل) کو لاہور پریس کلب میں اس معاملے پر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد بھی کررہے ہیں۔“

تبصرے (1) بند ہیں

Raheel Farooq Dec 03, 2013 02:02pm
اللہ برکت ڈالے اس منصوبے میں۔ مگر کیا کریں۔ اپنے علما سے عوام سیاست دانوں سے زیادہ مایوس ہے۔ لاڈلے بھی یہی زیادہ ہیں اور انوکھے بھی۔ اگر اللہ نے چاہا اور یہ ضابطہءِ اخلاق عمل میں آ گیا تو مجھے پاکستان کا مستقبل بہت بہتر نظر آتا ہے۔ انشاء اللہ!