مینڈیلا کی وفات۔ سماجی، معاشی اثرات کیا ہوں گے؟

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2013
اسکول کی طالبات نیلسن مینڈیلا کے لیے منعقدہ تقریب میں دعائیہ گیت گا رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
اسکول کی طالبات نیلسن مینڈیلا کے لیے منعقدہ تقریب میں دعائیہ گیت گا رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ: کل بروز جمعہ چھ دسمبر کو جنوبی افریقہ کے لوگ اپنے محسن اور عظیم رہنما نیلسن مینڈیلا کے انتقال پر سوگ منارہے تھے، لیکن کچھ لوگوں نے رقص کرکے اور گیت گا کر ان کی شاندار خدمات پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔لیکن کچھ لوگ یہ سوچ کر خاصے پریشان بھی تھے کہ رنگ و نسل پرستی کے خلاف بے مثال جدوجہد کرنے والے ہیرو کی وفات سے نسلی اور سماجی کشیدگی کے باعث قوم دوبارہ غیرمحفوظ ہوجائے گی۔

جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے کہا ہے کہ نیلسن مینڈیلا کو پندرہ دسمبر کو ان کے آبائی قصبے میں دفن کیا جائے گا۔

جنوبی افریقہ کے لوگوں کو صدر زوما نے ٹی وی پر براہِ راست خطاب کرکے یہ المناک خبر سنائی تھی کہ ان کے پہلے سیاہ فام صدر، نوبل انعام یافتہ رہنما طویل علالت کے بعد جوہانسبرگ میں اپنے گھر میں اپنے خاندان کے لوگوں کی موجودگی میں نہایت پرسکون اور اطمینان کے ساتھ وفات پاگئے ہیں۔

جمعہ کے روز جنوبی افریقہ کے پانچ کروڑ بیس لاکھ افراد نے اپنے سیاستدان کی یہ خبر سن کر محسوس کیا کہ مفاہمت اور پُرامن بقائے باہمی کی ایک علامت ہمیشہ کے لیے روانہ ہوگئی ہے۔

جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے یہ اعلان بھی کیا کہ مینڈیلا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی آخری رسومات دس دسمبر کو جوہانسبرگ کے سوکر سٹی اسٹیڈیم میں ادا کی جائیں گی، اس اسٹیڈیم کے اندر 2010ء میں فٹبال کے عالمی کپ کا فائنل میچ کھیلا گیا تھا۔

نیلسن میندیلا کو جوہانسبرگ کے جنوب میں سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر ان کے آبائی گاؤں قونو میں ایک احاطے کے اندر پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے گا، جہاں ان کے تین بچوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں کی بھی قبریں ہیں۔

مینڈیلا کی وفات پر عوامی شخصیات کی جانب سے افسردہ قوم کو یہ یقین دہانی کرنے کے باوجود کہ جنوبی افریقہ کو اپنے نسل پرست ماضی سے آگے بڑھنے سے نہیں روکا جائے گا، یہاں اکھٹا ہونے والے لوگے قیام امن کا باعث بننے والی اس ہستی کی غیر موجودگی سے سخت پریشان نظر آئے۔

ٹیمبیسا ٹاؤن شپ سے تعلق رکھنے والی شارون کوبیکا جو سیکریٹری کی ملازمت کرتی ہیں، نے کہا کہ ”یہاں کچھ اچھا نہیں ہونے جارہا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ نسل پرست ملک بننے جارہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل آجائیں گے اور غیرملکی یہاں سے چلے جائیں گے۔ مینڈیلا ہی وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے مختلف چیزوں کو ایک ساتھ رکھا ہوا تھا۔“

مینڈیلا کے گھر کے باہر جمع ہونے والے ہجوم میں سفید فام نسل سے تعلق رکھنے والے ایریل سوبل بھی شامل تھے، جن کی پیدائش 1993ء کی ہے، ان کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی مینڈیلا صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے مینڈیلا کے حوالے سے سب سے زیادہ ان کی درگزر کرنے کی عادت، ان کا بےلوث جذبہ اور ان کی گوناگوں شخصیت، اور انہوں نے کیا کیا عہد کیے۔ میں یہ سوچ کر پریشان نہیں ہوں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ ہم بطور ایک قوم کے متحد رہیں گے۔ہم جانتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے، اور ہم اس سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔“

مینڈیلا کے گھر کے باہر جمع ہونے والے ہجوم میں سے کچھ لوگوں نے درجنوں کبوتر فضا میں چھوڑے اور کچھ نے روایتی قبائلی گیت گائے، کچھ نے قومی ترانہ، خدا افریقہ کو خوش و خرم رکھے گایا۔ تو کچھ لوگوں نے نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کا ترانہ گایا اور کچھ نے مسیحی گیت گائے۔

جنوبی افریقہ کے سب سے محترم رہنما کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب کہ قوم کو نسل عصبیت کے خاتمہ کے بعد دنیا بھر سے خیرسگالی اور حمایت تو حاصل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی جنوبی افریقہ میں مزدور بے چین ہیں، سرکاری کارکردگی کی خرابیوں کے خلاف احتجاج بڑھتا جارہا ہے، جرائم بے روزگاری اور بدعنوانیوں کے الزامات نے صدر جیکب زوما کی حکومت کے دامن کو داغدار کر رکھا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں