کوئٹہ: پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے الیکشن کمیشن نے صوبے میں سات دسمبر کو ہوئے بلدیاتی انتخابات کے سرکاری نتائج کا اعلان کردیا، جس کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) 964 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

گزشتہ روز ہفتے کو جاری ہونے والے سرکاری نتائج کے مطابق پختونخوا ملی عوامی پارٹی 765، نیشنل پارٹی 562 اور پاکستان مسلم لیگ نون نے 472 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

الیکشن کمیشنر بلوچستان سید سلطان بایزید کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے تمام اضلاع کے نتائج موصول ہوچکے ہیں جن کو شفاف طریقے سے مرتب کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی خراب صورتحال اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر بلوچستان کے تین اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکا جن میں ضلع ہرنائی، تربت اور آواران شامل ہیں۔

صوبائی الیکشن کمشینر کا کہنا تھا کہ سات دسمبر کو بلوچستان کی چار ہزار چھتیش نشستوں پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جن میں چار سو بہّتر نشستیں ڈسٹرکٹ کونسل، سات سو بہّتر میٹرو پولیٹن، میونسپل کارپوریشن اور میونسپل کمیٹیز، جبکہ دو ہزار آٹھ سو بیالیس نشستیں یونین کونسل کی بھی شامل تھیں۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات کے سرکاری نتائج کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں میٹرو پولیٹن کی کل 58 نشستوں میں سے اکیس نشستوں پر آزاد امید واروں نے کامیابی حاصل کی، جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے اٹھارہ ، پاکستان مسلم نون نے پانچ ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف نے تین، نیشنل پارٹی دو، مجلس وحدتِ مسلمین ایک اور جمعیت علمائے اسلام(ف) اور جمعیت علمائے اسلام نون نے بھی ایک ایک نشستیں حاصل کی ہیں۔

سلطان بایزید نے کہا کہ صوبے کے مختلف اضلاع سے میونسپل کارپوریشن اور میونسپل کمیٹز کی نشستوں پر دو سو چوراسی جبکہ یونین کونسل کی نشستوں پر دو ہزار ایک سو بیس امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ میونسپل کارپوریشن کی خالی 34 نشستوں اور اس ہی طرح یونین کونسل کی پانچ سو گیارہ نشستوں پر بلدیاتی انتخابات کے دن پولنگ نہیں ہوئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ناظم، ڈپٹی ناظم، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے لیے انتخابات اقلیتوں، خواتین، مزدوروں اور کیسانوں کے لیے مختص نشستوں پر انتخابات کے انعقاد کے بعد ہوں گے۔

صوبائی الیکشن کمشینر نے کہا کہ کل مخصوص نشستوں میں سے تینتیس فیصد خواتین، جبکہ پانچ پانچ فیصد کیسانوں، مزدوروں اور اقلیتوں کے لیے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں