سال 2013 میں کھیل کے میدانوں پر متعدد فلمیں بنائی گئی جن میں رش اور ملکھا سنگھ شامل ہیں۔ اسی درمیان پاکستان نے بھی سپر اسٹار شاہد آفریدی کے کیریئر سے متاثر ہوکر 'میں ہوں شاہد آفریدی' نامی فلم بنائی۔ تاہم پاکستانی سرزمین نے متعدد دیگر ہیروں کو بھی جنم دیا ہے جن سے متاثرہ فلم سینما گھروں کی زینت بن سکتی ہے۔ ان سے چند کا ذکر ملاحظہ کیجئے۔

عظیم ترین خان؟

'جو انہوں نے اس زمانہ میں کیا تھا، وہ اب ہونا ناممکن ہے۔ ایک ان سنا نام ایسی عمر میں آکر سب سے بڑا ٹورنامنٹ جیت لیتا ہے جس عمر میں زیادہ تر کھلاڑی ریٹائر ہوجاتے ہیں؟ یہ ناقابل یقین ہے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے عروج پر کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے؟' یہ الفاط تھے کتاب 'اسکواش: کھیل کے تاریخ' کے مصنف جیمز زگ کے جو انہوں نے ایک انٹوویر کے دوران دیے۔ وہ بات کررہے تھے ہاشم خان کہ جو بلاشبہ اسکواش کے عظیم ترین کھلاڑی تھے۔ خان نے کھیل کا آغاز پشاور میں واقع برٹش آفسرز کلب میں ایک بال بوائے کی حیثیت سے کیا جہاں نوجوانی تک وہ خود سے ہی مقابلے کرتے رہے۔ ان والد کلب میں چیف اسٹیورڈ تھے جن کا بعد میں ایک حادثہ میں انتقال ہوگیا۔ اس لمحے سے خان نے اسکول چھوڑ خود کو کلب کے لیے وقف کردیا اور پہلے بال بوائے اور پھر کوچ کی حیثیت سے کلب سے منسلک رہے تاکہ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ پیسے کماسکیں۔

تاہم بمبئی سے آنے والے ایک پیشہ ور کھلاڑی سے میچ نے انکے کریئر اور اسکواش کی تاریخ کا رخ تبدیل کردیا۔ خان اس وقت 30 سال سے زائد عمر کے ہوچکے تھے۔ تاہم انہوں نے بمبئی سے آنے والے کھلاڑی کو باآسانی 9-7 سے ہراکر مقامی سیلیبریٹی بن گئے۔ اس کے بعد انہیں بمبئی میں 1944 میں منعقد ہونے والے ایک ٹورنامنٹ کے لیے دعوت دی گئی۔ بعدازاں وہ مسلسل تین مرتبہ اس ٹورنامنٹ جیتے تاہم تقسیم ہند کے بعد وہ اس ٹورنامنٹ کے لیے نااہل ہوگئے کیوں کہ خان پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ لیکن اسکواش کے اس ستارے کا سفر ابھی ختم ہونے سے بہت دور تھا۔

تقسیم کے پعد پاکستان کو شناخت اور قومی ہیروز کی تلاش تھی۔ ملک نے اپنی نگاہیں 37 سالہ ہاشم خان پر اس وقت مرکوز کرلیں جب ود برٹش اوپن میں پاکستان کی نمائندگی کرنے جارہے تھے۔ اپنے ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے اسی ٹورنامنٹ کو مزید چھ مرتبہ جیتا۔ آخری مرتبہ انہوں نے ٹورنامنٹ کو 44 سال کی عمر میں جیتا تھا۔

1960 کی دہائی میں خان کو امریکا میں بہتر روزگار مل گیا اور وہ ملک سے روانہ ہوگئے۔ تاہم اس درمیان انہوں نے تین کینیڈین اوپن اور یو ایس اوپن ٹائٹل بھی اپنے نام کیے۔ بعدازاں پاکستانی کھلاڑی ڈینور تشریف لے گئے جہاں کے میئر نے ان کے کارناموں سے متاثر ہوتے ہوئے یکم جولائی کو 'ہاشم خان ڈے' کے نام سے منسوب کردیا۔ اس بات کوئی شبہ نہیں کہ اسکواش کے کھیل پر حکمرانی کرنے والی خان برادری میں ہاشم خان عظیم ترین مقام رکھتے ہیں اور دنیا میں کم ہی لوگ ان کے عظیم ترین ہونے پر شبہ ظاہر کریں گے۔

نامور مصنف ہربرٹ ویرن ونڈ لکھتے ہیں: 'میں جتنا اس بارے میں سوچتا ہوں اتنا ہی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہاشم خان اس وقت کے اتھلیٹز میں سب سے عظیم ترین تھے۔'

اکھاڑے کے شہنشاہ

اگر مقامی سطح پر کبھی سوانح عمری پر کوئی فلم بنائی جائے تو یقیناً اس کا موضوع پاک و ہند مایہ ناز کشتی کے گھرانے ہونے چاہیئیں۔ عظیم گاما محمد عظیم عرف گاما پہلوان سے لیکر امام بخش اور منظور احمد عرف بھولو پہلو اور ان کے دیگر خاندان سے پاکستانی کشتی کا سنہری دور بنتا ہے جس نے دنیا بھر کے پہلوانوں کے دلوں میں خوف برپا کیا۔ ان کا پہلوانی کا سفر حقیقی طور پر شاندار تھا۔ ان کی حیثیت کچھ یوں تھی کہ اگر وہ ہندوستان اور پاکستان کے چیمپئن ہوتے تو انہیں دنیا کا چیمئن تصور کیا جاتا۔

امام بخش کے بیٹے بھولو برادران ان عظیم پہلوانوں کی آخری کڑی تھی۔ تاہم ان سب میں سب سے زیادہ مشہور 1927ء امرتسر میں پیدا ہونے والے منظور احمد عرف بھولو پہلوان ہوئے جو کہ امام بخش کے سب سے بڑے بیٹے اور گاما پہلوان کے بھتیجے تھے۔ 1947ء میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ بحث چھڑگئی کہ رستم پاکستان کون ہوگا تاہم 1949ء میں بھولو نے یونس پہلوان کو شکست دے کر یہ لقب اپنے نام کیا۔ دنیا بھر میں بھولو نے شہرت کی وہ بلندیاں عبور کیں کہ کسی بھی پہلوان کو بھولو سے مقابلہ کرنے کے لیے پہلے ان کے پانچ بھائیوں کو شکست دینی پڑتی پھر ان سے مقابلے کا موقع ملتا۔ کبھی کبھار تو ان کے ورزش کے معمولات اور خوراک مخالفین کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ڈال دیتے۔

1963ء میں بھولو کو گاما کے تخت کا وارث چنا گیا جبکہ ان کے چچا کو چاندی کا بیلٹ خود ایڈورڈ چہارم نے پیش کیا۔ 1960ء کی دہائی میں بھولو اور انکے بھائیوں نے انگلینڈ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے متعدد پہلوانوں کو مات دی۔ انہیں 1962ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ بعدازاں انہیں رستم زماں کا بھی دیا گیا۔ بھولو برادران آج صدیوں پرانے بنیاں درخت کے ساتھ دفن ہیں جو کہ ان کے سابقہ اکھاڑے کے ساتھ موجود ہے۔ جمادار مزار کی صفائی کرتے ہیں تاہم اب زیادہ تر یہاں خاموشی کے بادل ہی چھائے رہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال آج کی کشتی کا بھی ہے۔

آج غربت اور حکومت کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث پاکستانی پہلوانوں کا شاندار ماضی صرف یاد بنتا جارہا ہے جہاں صرف چند ہی ایسے پہلوان ہیں جو کہ اس روایت کو اگلی نسل تک پہنچا رہے ہیں تاہم ماضی کے قصے کہانیاں کو بیان کرنے والے اب چند لوگ ہی باقی ہیں۔

کورنگی کی رانی

'مجھے معلوم ہے کہ اپنے عزم سے آپ تمام تر مشکلات اور توقعات کے برعکس فتح حاصل کرسکتے ہیں اور میں نے ڈھاکہ میں ایسا ہی کیا۔' یہ الفاظ تھے بنگلہ دیش سے پاکستان آمد پر نسیم حمید کے جنہوں نے 2010ء کے جنوبی ایشیائی کھیلوں میں فتح حاصل کی تھی۔ ان کے اس کارنامے پر مقامی میڈیا نے انہیں 'دوڑ کی رانی' کے خطاب سے نوازا تاہم اس سے قبل ان کا نام شاید ہی کسی کی نظروں سے گزرا ہو پھر چاہیں وہ سیاست دان ہوں، منتظمین یا پھر کوچز جو کہ کامیابی کے بعد انکے اردگرد نظر آنے لگے۔

ان کھیلوں کی 26 سالہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے سو میٹر اسپرنٹ میں کامیابی حاصل کی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ فتح توقعات کے برعکس تھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔ اس سے قبل پاکستان کی جانب سے شبانہ اختر ہی وہ واحد خاتون ایتھلیٹ تھیں جنہوں نے اس ڈسپلن میں 1993 اور 1995 میں طلائی تمغے حاصل کیے تھے۔

تاہم کراچی کے علاقے کورنگی میں پیدا ہونے والی اس ایتھلیٹ کی کہانی کی وجہ شہرت صرف ایک نہیں تھی۔ ایئر پورٹ پر ایک بڑے ہجوم کے سامنے مغلوب نسیم کے چہرے پر وہ مشکلات واضح تھیں جو انہوں نے اس فتح کو حاصل کرنے سے پہلے جھیلی تھیں۔ سات فروری کو ہونے والی اس دوڑ کے بارے میں نسیم نے کہا 'میں نے اپنے کوچ مقصود احمد سے چٹکی لینے کو کہا تاکہ مجھے اس بات کا احساس ہوسکے کہ یہ کوئی خواب نہیں ہے۔'

'شروع کے 30 منٹ مجھے یہ خواب ہی لگا اور اس کے بعد جو ہوا وہ بھی خواب جیسا تھا۔'

تاہم بدقسمتی سے بظاہر نسیم کے لیے یہ واقعی خواب جیسا ہی تھا۔ فتح کے بعد مستقبل کے بارے میں کیے گئے وعدے یہاں تک کے ان کی کامیابی کو بھی عہدیداران کی جانب سے بھلادیا گیا۔

قصہ دو 'شاہوں' کا

جب ابرار حسین شاہ 16 جون 2011ء کو گھر واپس لوٹنے کے لیے اپنے آفس سے باہر قدم بڑھارہے تھے، انہیں شاید ہی اس بات کا اندازہ ہوکہ باہر ان کا کون انتظار کررہا ہے۔ یہ وہ شخص تھے جنہوں نے باکسنگ رنگ کے اندر اور باہر اپنی پوری زندگی تکلیفیں برداشت کیں تاہم اس رنگ سے انکا لگاؤ کم نہ ہوا۔

ابرار کا بین الاقوامی ڈیبو 1983ء میں ہوا جس کے بعد انہوں نے اس سال جاپان میں ایشین باکسنگ چیمپئن شپ میں کانسی تمغہ حاصل کرتے ہوئے دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اگلے سال لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی جس کے بعد کئی دیگر بین الاقوامی اور مقامی مقابلوں میں انہوں نے پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دیں۔

ابرار کی نمایاں کارکردگی 1985ء کے ڈھاکہ میں ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز کے دوران سامنے آئی جہاں انہوں نے 71 کلو گرام کیٹیگری میں ہندوستان کے منجیت پال کو شکست دیکر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ کوئٹہ میں پیدا ہونے والے باکسر نے 1988ء کے اولمپکس کے دوران بھی ملک کی نمائندگی کی اور 1989ء کے ساؤتھ ایشین گیمز میں ایک اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔

تاہم انکے کیریئر کی بہترین پرفارمنس 1990ء کے بیجنگ ایشین گیمز کے دوران سامنے آئی جہاں انہوں نے سونے کا تمغہ حاصل کرتے ہوئے پاکستان کا نام سرخرو کیا۔ اس کے بعد 1992ء میں بھی انہوں نے اولمپکس کے دوران پاکستان کی نمائندگی کی تاہم بیجنگ میں حاصل ہونے والا سونے کا تمغہ انکے کریئر کا خاص لمحہ تھا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ باکسنگ سے ہی وابسطہ رہے اور نوجوان باکسروں کو تربیت دینے میں مصروف رہے۔ ان کی اہلیہ نے بی بی سی کو انکے سفاکانہ قتل کے بعد 16 جون کو بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک آسان روزگار بھی حاصل کرسکتے تھے تاہم انہوں نے ملک کی خدمت کرنے کو ترجیح دی۔ وہ پاکستان اسپورٹس بورڈ میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ جم میں گزارے ہزاروں گھنٹے، پاکستان کی نمائندگی کرنے کے دوران لگی چوٹیں، ان کے حاصل کردہ میڈل اور ملک سے بے انتہا محبت سب ایک طرف، ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ شیعہ تھے اور ان کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔

خوش قسمتی سے زحسین شاہ کی کہانی اس المناک ناامیدی کے ساتھ ختم نہیں ہوئی جس طرح ابرار کی کہانی کا اختتام ہوا۔ بہر حال یہ کہانی بھی ایسے ہی شخص کی تھی جن کے کارناموں کے بھلادیا گیا۔

حسین نے بھی ابرار کے کریئر کے دوران بالسنگ کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ ابرار کو نہ صرف ایک اچھا باکسر بلکہ ایک اچھا انسان بھی سمجھتے تھے تاہم لیاری میں پیدا ہونے والا یہ باکسر پاکستان کو باکسنگ کے میدان میں ایک نئی اونچائی پر لے جانے والا تھا۔

انہوں نے ساؤٹھ ایشین گیمز کے دوران اپنے ڈیبو پر دو طلائی نمغے بٹورے جسکے بعد انہوں نے لگاتار میچوں میں کامیابی حاصل کرکے ایشیا کے اندر اپنی ساخ پیدا کی اور خطے کے بڑے باکسروں میں شمار ہونے لگے۔ اس علاوہ انہوں نے 1985، 1987، 1989 اور 1991 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1997ء میں انہوں نے جکارتہ میں منعقد ہونے والے پریزیڈنٹز کپ ٹورنامنٹ میں اول نمبر حاصل کیا۔

تاہم ان کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ان سالوں کے درمیان 1988ء کے سیول اولمپکس کے دوران آئی جب یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ پاکستان بغیر کسی سونے کے تمغے کے واپس لوٹ سکتا ہے۔ میکسکو کے مارٹن اماریلس، کانگو کے مسنگے 'سرج' کابونگو اور ہنگری کے زلتان فوزیسی کو ہرانے کے بعد حسین کو طلائی تمغے سے صرف کینیڈا کے اگرٹن مارکس ہی روک پائے۔ حالانکہ سیول میں ہونے والے یہ سیمی فائنل اس طرح سے اختتام پذیر نہیں ہوا جیسا حسین چاہتے تھے تاہم اس سے پاکستانی باکسنگ میں ایک طرح کا انقلاب برپا ہوگیا اور عالمی طور پاکستان کو باکسنگ کے میدان میں شناخت مل گئی۔ آج بھی ان کا سیول اولمکپس کے دوران کانسی کا تمغہ اور 1960ء روم میں پہلوان محمد بشیر کا کانسی کا تمغہ اولمپک مقابلوں میں پاکستان کے واحد دو تمغے ہیں۔

وطن واپسی پر حسین کا پرجوش استقبال کیا گیا تاہم جلد ہی انہیں حکام اور شائقین کی جانب سے بھلا دیا گیا۔ حکومت کے بلند و بالا دعوؤں کے برعکس حسین جاپان منتقل ہونا پڑا جہاں انہیں 'تھوڑی زیادہ عزت' دی جاتی ہے۔ انہیں وہاں مقامی باکسروں کو تربیت دینے کا کام دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں