سال 2013 سات سیریز فتوحات، ٹیسٹ سیریز میں بدترین شکست، ایک تاریخی ہار کے بیچ تن تنہا جدوجہد، ہتھیار ڈالنے اور کم بیک کی انفرادی کہانیوں سے تعبیر رہا۔

پاکستانی معیار کے مطابق یہ کسی طور خراب سال نہ تھا جہاں 2013 نے ملکی کرکٹ ٹیم نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عوام سے مختلف مرحلوں پر خوشی اور غم کے لمحات بانٹے۔

اس سلسلے کا آغاز عالمی چیمپیئن ہندوستان سے ہنگامی بنیادوں پر طے کردہ دوطرفہ سیریز سے ہوا جہاں یہ دورہ پاکستان کے شاندار باؤلنگ اٹیک کا امتحان ثابت ہونے بجائے اسے تقویت کی فراہمی کا ذریعہ بنا۔ 2012 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں جب دونوں ٹیمیں مدمقابل آئیں تو گوتم گمبھیر، ویرات کوہلی، وریندر سہواگ، ایم ایس دھونی اور یوراج سنگھ نے باآسانی اس خطرے کو ٹال دیا تھا جس سے 2007 کے بعد قومی ٹیم کی پہلی بار ہندوستان روانگی سے قبل وہاں کے شائقین اپنی ٹیم کو فیورٹ تصور کر رہے تھے۔

دو ٹی ٹوئنٹی میچز کے مقابلے میں دونوں ٹیموں نے ایک فتوحات سے ابتدا کی لیکن اس کے بعد ہونے والی ایک روزہ میچز کی سیریز میں پاکستان بھرم قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔ سابق اسٹار کھلاڑیوں نے ہندوستان سے کھیلے گئے میچز کے تجربات شیئر کرتے ہوئے سیریز سے قبل باؤلرز کو تیز اور جارحانہ انداز باؤلنگ اپنانے کا مشورہ دیا۔

ان تمام مشوروں کا اثر پہلے ہی میچ میں دکھائی دیا جہاں ٹی ٹوئنٹی سیریز میں عرفان کی جانب سے 90 میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے پھینکی گئی خطرناک گیند نے سیریز میں پاکستان کے لیے ایک راہ متعین کی، سیریز میں جنید خان کو کھیلنا ہندوستانی بلے بزوں کے لیے محال رہا تو عمر گل اور سعید اجمل نے بقیہ کام آسان کرتے ہوئے ہندوستان کا قصہ تمام کیا۔ لیکن 2-1 کی فتح کی حامل اس سیریز کا سب سے روشن پہلو بائیں ہاتھ کے اوپنر ناصر جمشید تھے ایک روشن ستارے کی مانند ابھر کر سامنے آئے اور ابتدائی دو میچوں میں یکے بعد دیگرے سنچریاں اسکور کر کے شائقین، ماہرین اور حتیٰ کہ حریفوں کو بھی داد دینے پر مجبور کردیا۔

لیکن جمشید کی صلاحیتیں کچھ عرصے بعد جنوبی افریقہ میں آشکار ہو گئیں جہاں دنیا کی بہترین باؤلنگ لائن ان کا امتحان لینے کے لیے تیار تھی اور یہ سب انہیں ڈیل اسٹین، ورنن فلینڈر مورنے مورکل اور غیر معروف کائل ایبٹ کا وانڈررز کی پچ پر سامنے کی صورت بھگتنا پڑا جہاں تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کے اختتام پر پاکستان کی جانب سے اسکور کیے جانے والے اسکور کی صورتحال کچھ یوں تھی۔49، 268، 338، 169، 156 اور 235۔ اس تمام سیریز میں حفیظ اسٹین کی جیب میں دکھے تو مصباح الحق دباؤ کا شکار نظر آئے۔ دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان اور اسد شفیق کی جانب سے مشکل صورتحال میں 111 رنز کی اننگز اور اجمل کی جادوگری وائٹ واش سیریز کا مثبت پہلو ثابت ہوئے۔

ایک روزہ میچز میں سخت مقابلے کے بعد 3-2 سے سیریز ہارنے سے قبل ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم کچھ کرتی دکھائی دی اور 1-0 سے کامیابی اپنے نام کی۔

مجموعی طور پر اس دورے نے پاکستان کو مکمل طور پر ہلا ڈالا جس کے اثرات چند ماہ بعد انگلینڈ میں ہونے والے چیمپیئنز ٹرافی کے آخری ایڈیشن میں بھی دکھائی دیے جہاں پاکستانی ٹیم تینوں میچز میں شکست کے ساتھ پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گئی۔

ان دونوں ایونٹ میں درحقیقت پسنے کے بعد قابلیت اور اعتماد سے محروم پاکستانی ٹیم نے کیریبئن دیس کا دورہ کیا جہاں اسے ناکامیوں کی بڑھتی موجوں کو تھما دینے کا چیلنج درپیش تھا۔

اور اس بار ایسا کرنے کا سہرا اس شخص کے سر تھا جسے چیمپیئنز ٹرافی کے لیے ڈراپ کر دیا گیا تھا اور اور ناقدین کی جانب سے کچھ ایسے بیانات آرہے تھے کہ آفریدی 150 میچز زائد کھیل گئے ہیں۔

ایک ایسے موقع پر جب پاکستان 47 رن پر پانچ وکتوں سے محروم ہو چکا تھا، شاہد خان آفریدی کی میدان میں آمد ہوئی جنہوں نے کیمار روچ کو لانگ آف پر زور دار چھکا جڑ کر روایتی انداز میں کھاتا کھولا۔ مزید چار چھکوں اور چھ چوکوں سے مزین 55 گیندوں پر 76 رنز کی اننگ اور کپتان مصباح کے ساتھ قیمتی شراکت کی بدولت وہ قومی ٹیم کا مجموعہ 224 رنز تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔

اور پھر جب لالا نے گیند ہاتھ میں تھامی تو کئی بار اپنے روایتی انداز میں فتح کا جشن مناتے ہوئے سینہ تان کر کھڑے ہوئے جہاں نو اوورز میں بارہ رنز دے کر سات وکٹیں ایک روزہ میچز کی دوسری بہترین باؤلنگ کے ساتھ ساتھ سال کی سب سے بہترین باؤلنگ پرفارمنس بھی ٹھہری، یہ کسی بھی اسپنر کی ون ڈے کرکٹ میں سب سے بہترین کارکردگی قرار دی گئی اور آفریدی نے کیریئر کا تیسرا مین آف دی میچ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

اس کارکردگی کے ساتھ وہ ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں سات ہزار رنز اور 350 وکٹیں لینے والے پہلے باؤلر بھی بن گئے۔

فتوحات کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے پاکستان نے سیریز میں تین۔ایک سے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک میچ برابر رہا۔ بعدازاں زمبابوے کے خلاف ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیزیز میں بھی گرین شرٹس نے کامیابی حاصل کی تاہم برینڈن ٹیلر کی ٹیم نے ٹیسٹ سیریز میں شاندار کم بیک کی اور پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں چوبیس رنز کی شرمناک شکست سے دو چار کیا۔ یہ شکست اس اعتبار سے بھی اذیت ناک کی کیوں کہ اس کے بعد پاکستان کا کا سامنا متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقہ سے ہونا تھا جو کہ یقینی طور پر مصباح الیون کے لیے ایک کڑا امتحان تھا۔

تاہم اس کے بعد جو ہوا وہ حیران کن ہوکر بھی حیران کن نہیں تھا۔ ابو ظہبی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد ون ڈے سیریز میں شکست کے باوجود مصباح الیون نے رواں سال مڑکر نہ دیکھا۔

پہلے ٹیم نے جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر ہراکر تاریخ رقم کی اور ایسا کرنے والی یہ پہلی ایشین ٹیم تھی۔ کچھ ہفتوں بعد حفیظ جو کہ اسٹین کے سحر میں مبتلا ہوگئے تھے، نے باہمی سیریز میں تین سنچریاں اسکور کرکے ناقدین کو خاموش کردیا۔ ظہیر عباس کے بعد ایسا کرنے والے وہ دوسرے پاکستانی ہیں۔ ان کی بدولت پاکستان نے سری لنکا کے خلاف سیریز میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور سری لنکا کو تین۔دو سے ایک روزہ سیریز میں زیر کیا۔ اسی کے ساتھ پاکستان 2013 میں سات باہمی سیریز جیتنے میں کامیاب رہا جو کہ ملکی ریکارڈ ہے۔

مصباح سال میں 15 نصف سنچریاں اسکور کرکے پاکستان کی جانب سے سب سے بھروسہ مند بلے باز رہے جسکے باوجود ناقدین اور شائقین کرکٹ نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ 2013ء میں ایک روزہ کرکٹ میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے بیٹسمین رہے جبکہ اسی فہرست میں دوسرا نمبر حفیظ کا رہا جنہوں نے پانچ سنچریوں کی بدولت 1301 رنز اسکور کیے۔

پاکستان نے گزشتہ سالوں ہی کی طرح بہترین باؤلنگ کا تسلسل جاری رکھا اور اس مرتبہ بھی سعید اجمل کی شاندار باؤلنگ کا تسلسل جاری رہا اور انہوں نے 62 وکٹوں کے ساتھ سال کا اختتام کیا۔ اس فہرست میں دوسرا نمبر جنید خان کا تھا جنہوں نے 52 وکٹیں حاصل کیں۔ عمر گل نے جنوبی افریقہ کے خلاف 2.2 اووروں میں 6 رنز کے عوض پانچ وکٹیں حاصل کی جسکی بدولت وہ آئی سی سی کا ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ حیران کن طور پر عمر اکمل 32 وکٹ کے پیچھے 32 شکاروں کے ساتھ ایم ایس دھونی کے بعد سال کے بہترین وکٹ کیپر رہے۔ اس فہرست میں وہ سری لنکن وکٹ کیپر کمار سنگاکارا سے آگے رہے۔

نام نہاد 'مسٹر ٹک ٹک' نے سال کا اختتام ایک اور چونکا دینے اسٹیٹ سے کیا۔ سال میں سب سے زیادہ چھکے لگانے والے بلے بازوں کی فہرست میں وہ صرف جارج بیلی اور روہت شرما سے پیچھے رہے جبکہ بوم بوم سے انہوں نے تین زیادہ چھکے لگائے۔

تبصرے (0) بند ہیں