ورثہ خطرے میں

15 جنوری 2014
۔—فائل فوٹو۔
۔—فائل فوٹو۔

جیسا کہ کمزور حکومتی نگرانی اور ساتھ ہی نئی تعمیرات کے پردے میں تجاوزات قائم ہوتی ہیں، زمینوں پر قبضے کا مسئلہ پورے ملک میں عام ہے۔ سرکاری اور نجی زمینوں کو تو مالِ مفت سمجھ کر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے لیکن یہاں تو ملک کے تاریخی ورثے تک اُن سے محفوظ نہیں۔

اسلام آباد بھی ان قابضین سے محفوظ نہیں، جنہوں نے دارالحکومت کے بعض نہایت اہم تاریخی مقامات پر قبضہ جمالیا ہے۔ جیسا کہ پیر کو 'ڈان' میں خبر شائع ہوئی، مرگلہ پہاڑیوں میں واقع شاہ اللہ دتّہ کے علاقے میں، بدھ مت کے قدیم دور سے تعلق رکھنے والی بعض غاروں کو زمین کے تجارتی قبضہ گیروں سے خطرات لاحق ہیں۔

بدھ مت کی یہ غاریں، جن کے اندرونی حصوں پر چوبیس سو سال پرانی تصاویر نقش ہیں، اطراف کے دلکش ماحول میں ریستورانوں اور رہائشی منصوبوں کے بے تحاشہ پھیلنے کے باعث، یہ تاریخی ورثہ بھی خطرے میں آچکا ہے۔

بعض صورتوں میں دیکھا گیا کہ اس طرح کی غیر قانونی تعمیرات کرنے والے عدالتی حکم کی آڑ لے کر اپنا کام دکھادیتے ہیں۔ بظاہر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ان غاروں کو محفوظ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اب تک یہ بدستور برف تلے دبا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے اطراف میں ہر جگہ، جیسے عالمی تاریخی ورثہ ٹیکسلا، تاریخی ورثے کو تجاوزات اور تجارتی مفادات رکھنے والوں سے خطرات لاحق ہیں۔ ساتھ ہی پہاڑ والا قلعے کو بھی قبضہ گیروں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔

صرف یہ غاریں ہی نہیں، بتایا جاتا ہے کہ شاہ اللہ دتّہ میں ایک ایسی مسجد بھی ہے جو غزنوی عہد سے تعلق رکھتی ہے، ساتھ ہی اس علاقے میں، بدھ دور سے تعلق رکھنے والا ایک اسٹوپا اور درس گاہ بھی ہے۔ اگر زمین پر غیر قانونی قبضوں کو روکا نہ گیا تو پھر اگلے مرحلے میں یہ تاریخی ورثہ تجارتی مفادات کے تلے دفن ہوچکا ہوگا۔

صرف یہی نہیں کہ تاریخی ورثے خطرے میں پڑچکے بلکہ اسلام آباد میں منصوبہ بندی کے بغیر بے لگام تعمیرات نے شہر کے قدرتی ماحول کو بھی خطرے کی زد پر ڈال دیا ہے۔ شہر میں رہائشی منصوبوں اور تفریحی مقامات تعمیر کرنے کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے تو پھر تھوڑے سے مفاد کے واسطے کیوں تاریخی ورثے اور قدرتی ماحول کو تباہ کیا جارہا ہے؟

سی ڈی اے، آرکیالوجیل حکام اور حکومت کے دوسرے شعبوں کو اسلام آباد کے تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بدھ مت کی ان غاروں کے تحفظ کے واسطے بنائے گئے منصوبے کو دوبارہ سرگرم کیا جائے جبکہ وفاقی دارالحکومت اور اس کے اطراف جتنا بھی تاریخی ورثہ موجود ہے، اسے زمین کے قبضہ گیروں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں