فیئرنس کریموں کے اشتہاروں سے نسلی امتیاز کا فروغ؟

13 فروری 2014
ہندوستان میں کویتا امانویل ایک این جی او کے تحت مہم چلارہی ہیں کہ سیاہ رنگت خوبصورت ہے۔
ہندوستان میں کویتا امانویل ایک این جی او کے تحت مہم چلارہی ہیں کہ سیاہ رنگت خوبصورت ہے۔

رنگ گورا کرنے والی کاسمیٹکس مصنوعات کی اربوں ڈالرز مالیت کی صنعت اس خیال کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے کہ گورا رنگ اور گندمی جلد ہی خوبصورت ہیں، اور ان کی یکساں اہمیت ہے ۔

کاسمٹیکس مصنوعات تیار کرنے والی صنعت روایتی طور پر لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ ان کی خاص مصنوعات کے بغیر نامکمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میک اپ اور مصنوعی گندمی رنگ کے برعکس رنگ گورا کرنے والی کریموں سے حاصل خوبصورتی نے نسلی ضابطے میں عدم برداشت اور سنگین سماجی نقصانات کو بھی فروغ دیا ہے۔

ہندوستان جیسے ملک میں جہاں نو آبادیاتی نظام کے تحت اور ایک نسلی وراثت دونوں ہی کا غلبہ رہا تھا، اس کے علاوہ عالمی داستانیں بھی یہی کہتی ہیں کہ معاشرے کی اعلٰی سطح کا طبقہ گورے رنگ کا مالک تھا۔

یہاں بہتر ملازمت اور اچھے رشتے کے حصول جیسے معاملات بھی اکثر جلد کی رنگت کی وجہ سے کامیابی ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد بہتر نتائج کے حصول کے لیے رنگ گورا کرنے والی کریموں کی خریداری پر اپنی کمائی کا بیشتر حصہ خرچ کر دیتی ہے۔

اسی عدم مساوات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کاسمیٹکس تیار کرنے والی کارپوریشنوں کی جانب سے سینکڑوں مصنوعات فروخت کے لیے پیش کردی گئی ہیں، یہاں تک کہ ان میں بغلوں کو گورا کرنے والی کریمیں، جینٹائل وائٹنر اور فیئرنس بے بی آئل بھی شامل ہیں۔

انڈیا اور تھائی لینڈ جیسے ملکوں میں ایسی کاسمیٹکس مصنوعات تلاش کرنا مشکل کام ہے جن کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا ہو کہ یہ رنگ گوریا کرتی ہیں یا اسے چمکدار بناتی ہیں۔ حال ہی میں ایک مشہور شخصیت کے ذریعے نائجیریا میں لانچ کی گئی ایسی ہی ایک پروڈکٹ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر خرید لی گئی۔

بہت سی عالمی کارپوریشنیں اس مارکیٹ میں شامل ہیں، جیسے کہ یونی لیور، جو فیئر اینڈ لولی، پونڈز وہائٹ بیوٹی، ویسلین اور ڈَوو کی وہائٹننگ رینج فروخت کرتا ہے۔

خواتین کے ساتھ اس امتیازی سلوک سے بھرپور ماحول کو چیلنج کیا ہے ایک ہندوستانی غیر سرکاری تنظیم این جی او نے، جس نے سیاہ رنگت خوبصورت ہے کے عنوان سے ایک مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کی ڈائریکٹر ہیں کویتا ایمانویل، ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے نتائج بچوں اور نوجوانوں میں کام کرکے حاصل ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جلد کی رنگت کا مسئلہ لوگوں کے سامنے اُٹھایا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح نوجوانوں خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے رنگت ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ اگر ان کا رنگ صاف نہیں ہوتا تو وہ اپنے لیے اچھا محسوس نہیں کرتے۔“

”جلد کی رنگت کے حوالے سے پایا جانے والا تعصب لوگوں کی نفسیات کو متاثر کرتا ہے۔ اس تعصب کا اثر بچوں کی اسکول میں کارکردگی پر پڑتا ہے، اس لیے کہ ان کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ وہ خود کو بہتر محسوس نہیں کرتے۔“

”اور جب شادی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جلد کی رنگت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ آخر ہم کیوں اس بارے میں خاموش رہتے ہیں؟ ہمیں اس بارے میں بات کرنی چاہیٔے اور دیکھنا چاہیٔے کہ لوگ اس پر کیا ردّعمل ظاہر کرتے ہیں۔“

کویتا ایمانویل نے تیس ہزار لوگوں کے دستخطوں کے ساتھ ایک پٹیشن امامی کاسمیٹکس کمپنی کے حوالے کی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فیئر اینڈ ہینڈسم کے ایک خاص اشتہار سے دستبردار ہوجائے جس میں رنگت کے حوالے سے امتیازی انداز اختیار کیا گیا تھا۔

انہوں نے امامی کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کے الفاظ دہرائے ”ہماری سوسائٹی کو رنگ گورا کرنے والی کریموں کی ضرورت ہے، لہٰذا ہم ان کی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔“

امامی کمپنی نے اس اشتہار کو واپس لینے سے انکار کردیا۔ ایڈورٹائزنگ کونسل آف انڈیا سیاہ رنگت خوبصورت ہےکی مہم کے تحت اس طرح کے اشتہارات کے خلاف قانون سازی کے لیے کوشش کررہی ہے، جن سے گہری رنگت کے خلاف امتیازی رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔

بالوں اور آنکھوں کے رنگ کے ساتھ ساتھ جلد کی رنگت کا انحصار جینیاتی طور پر میلانن نامی ایک عنصر پر ہوتا ہے، جو جلد کی اوپری سطح پر پایا جاتا ہے۔

اس عنصر کی مختلف مقدار ہی جلد کی مختلف رنگت کا سبب بنتی ہے، اس کا تعلق تاریخی طور پر اس خطے سے بھی ہے، جہاں دھوپ کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

اب جلد کی رنگت گورا کرنے والی مصنوعات انٹی میلانن کے ساتھ فروخت کی جارہی ہیں، جن کے پریشان کن نتائج سامنے آئے ہیں۔

برطانوی اسکن فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی اور ڈرماٹولوجسٹ کنسلٹنٹ ڈاکٹر باؤ شیرگل اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ ”میلانوسائٹس کے ذریعے تیار ہونے والا میلانن ہماری جلد کے ڈی این اے کو سورج کی جانب سے پہنچنے والے نقصان سے بچاتا ہے۔ میلانن کا ضرورت سے زیادہ ارتکاز جلد کے کینسر کے خطرے میں اضافہ کرسکتا ہے۔“

دیگر کریموں میں خطرناک کیمیکلز پائے گئے ہیں، جن میں ہائیڈروکیونن اور مرکری شامل ہیں۔

برٹش اسکن فاؤنڈیشن مشورہ دیتی ہے کہ ہائیڈروکیونن جلد میں شدید جلن اور جلد کی ناہموار بلیچنگ کا سبب جبکہ مرکری جلدی بیماریوں میں اضافے اور شدید خارش کا سبب بن سکتا ہے۔

ان دونوں کیمیکلز پر یورپی یونین میں پابندی ہے، اگرچہ دوسرے ملکوں میں ان پر پابندی نہیں ہے، ایسی کریمیں جن میں یہ کیمیکلز استعمال کیے گئے ہوں برطانوی حکام کا معمول ہے کہ وہ انہیں ضبط کرلیتے ہیں۔

یہ کارپوریشنیں نسلی عدم مساوات کا فائدہ اُٹھارہی ہیں اور لوگوں میں خود سے نفرت کا گہرا احساس اُجاگر کررہی ہیں، جبکہ یہ گلی گلی فروخت ہونے والی مصنوعات یا تو غیر مؤثر ہیں یا پھر خطرناک۔

ڈَوو کی ”حقیقی خواتین“ کی مہم، جس میں حسن کے روایتی تصورات کے چیلنج کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، فروخت میں سات سو فیصد اضافے کا باعث بنی۔ کویتا ایمانویل سمجھتی ہیں کہ جلد کی رنگت گورا کرنے کی کریمیں عوام کے لیے طبی مسائل کا سبب بن رہی ہیں، جسمانی اور نفسیاتی دونوں۔ جبکہ اس کے ذریعے کارپوریشنیں بھاری منافع حاصل کررہی ہیں۔

ایمانویل کہتی ہیں کہ ”میں کہنا چاہوں گی کہ ہمیں اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے برسوں لگ جائیں گے۔ ہمارے ملک میں مختلف رنگوں کے لوگ آباد ہیں، ہمیں چاہیٔے کہ ہم ہر ایک رنگ کو اہمیت دیں۔ یہ ان کارپوریشنوں کے لیے ایک پیغام ہے، جو اس خیال کو فروخت کرکے اربوں کمارہی ہیں کہ صرف گورا رنگ ہی خوبصورت ہے۔

یونی لیور نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں