شیطان پورہ: وہ شہر جہاں شیطان رہتا تھا

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2014
کنواری لڑکیوں کے ساتھ پہلی رات گزارنے کی اجازت صرف شاہی دربار سے تعلق رکھنے والے امراء کو تھی
کنواری لڑکیوں کے ساتھ پہلی رات گزارنے کی اجازت صرف شاہی دربار سے تعلق رکھنے والے امراء کو تھی

لوگ اسے طوائفوں کی عظیم ہجرت کا نام دیتے ہیں۔ 1570 سے پورے ہندوستان اور اس سے بھی آگے سے طوائفیں، بیل گاڑیوں، اونٹ گاڑیوں اور ہاتھ سے کھینچنے والی گاڑیوں میں بیٹھ کر فتح پور سیکری میں آ کر جمع ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔

ملا عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں کہ بہت سی اخلاق باختہ عورتیں ان طوائفوں کےعلاوہ تھیں۔ فتح پور سیکری کے ان خوشحال گھرانوں میں انسانی جلد کا وہ کون سا رنگ تھا جو نہ پایا جاتا ہو۔ وسطی ایشیا کے وسائل سے بھرپور غلاموں اور کنیزوں کے سوداگر، ہر کسی کی خواہش اور ضرورت پوری کر رہے تھے۔ فتح پور سیکری کی فضا میں کچھ ایسی بات تھی کہ یہاں امن کا دور دورہ تھا۔ امن اور سلامتی کا یہ احساس صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ یہاں بسنے والے کیڑے مکوڑوں کے برتاؤ سے بھی اس کا احساس ہوتا تھا۔

پورے ہندوستان میں فتح پور سیکری کے چوہے سب سے زیادہ با تمیز سمجھے جاتے تھے۔ کچھ لوگ اس کی وجہ وہاں کے والی، شریف خان کی اچھی انتظامی صلاحیت کو مانتے تھے جسے بادشاہ کی طرف سے پوری سلطنت کے جانوروں کا انچارج بنایا گیا تھا اور وہ جانوروں کا سلطان بن گیا تھا۔ جبکہ کچھ لوگ اس کی وجہ دیوان عام میں موجود ہاتھی کے بڑے مجسمے کو سمجھتے تھے۔ چونکہ گنیش نے چوہے دیوتا پر فتح حاصل کی تھی لہٰذا یہ بات فطری معلوم ہوتی تھی کہ اس کے دیو ہیکل مجسمے کی موجودگی میں چوہے دب کر رہتے تھے۔ لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ چوہوں نے ابتدا میں طوائفوں کے کوارٹرز میں گھر کر لیا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے غیر مطمئن گراہکوں کی شکایات بڑھ گئیں۔ جب یہ گراہک اپنے کام میں مصروف ہوتے تو چوہے نہایت دیدہ دلیری سے ان کے سامنے انہیں تنگ کرنے آ جاتے تو کبھی کتری ہوئی لکڑی کی چھتوں سے کوئی چوہا ان کی ننگی پیٹھ پر گر جاتا۔

طوائفوں نے اس مسئلے کے حل کے لئے ہر جمعرات کو ان کے لئے مٹھائیاں رکھنے کی نذر مانی۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ان کی نذر کے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں انہوں نے ان مٹھائیوں میں افیم بھی چھڑکنا شروع کر دی۔ اب ایسی شاندار نعمت میسر آنے کے بعد چوہوں نے کبھی طوائفوں یا ان کے گراہکوں کو پریشان نہ کیا۔

کہتے ہیں قسمت اور وقت ایک سے نہیں رہتے۔ دربار میں مذہبی پیشواؤں میں یہ باتیں ہونے لگیں کہ فتح پور سیکری ایک شہر گناہ بنتا جا رہا ہے۔ شیخ سلیم چشتی جن کے اعزاز میں یہ شہر بنا تھا، بہت مشکل دوردیکھا تھا۔ وہ معاملات کو بالغ النظری اور وسیع القلبی سے دیکھتے تھے۔ تاہم کچھ دوسرے ایسے بھی تھے جو اتنی برداشت نہیں رکھتے تھے، بہت سے مذہبی عالم جن کی شامیں خشک فرقہ ورانہ اور مذہبی بحثوں میں گزرتی تھیں، جو ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔

ان کی ان حرکتوں اور زہریلے رویے سے تنگ آ کر آخر کار بادشاہ نے ان کی محفل ترک کر دی اور ان کے بجائے اپنا وقت ان لوگوں کے ساتھ گزرنا شروع کر دیا جن کے ہاتھوں میں یا تو جام ہوتا یا پھر ان کے بغل میں ان کی محبوبہ۔ اس سے ہوا یہ کہ تمام مذہبی پیشوا اور عالم ایک ہو گئے اور انہوں نے اپنا نشانہ ان لوگوں کو بنانا شروع کر دیا جنہیں بادشاہ وقت نے مذہبی عالموں کے بجائے اپنے ساتھ بٹھانا شروع کر دیا تھا اور وہ انہیں اپنا حریف سمجھنے لگے تھے۔

جب ان لوگوں کی شکایات حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور جس کی وجہ سے بادشاہ کے ذہنی سکون میں بھی خلل پڑنے لگا تو بادشاہ نے ان کی شکایات کے ازالے اور ان کی تنقید کی وجہ سے ایک فیصلہ کیا۔

1582 میں ایک شاہی فرمان جاری ہوا جس کے تحت تمام طوائفوں کو فتح پور سیکری کے نزدیک ایک علاقے میں جلاوطن کر دیا گیا جسے "شیطان پورہ" کا نام دیا گیا۔

شیطان پورہ کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے ایک پورا سیٹ اپ بنایا گیا، جس میں گارڈز، معملات دیکھنے والا، ان کے نگران اور رجسٹرار بھی تھے۔ شیطان پورہ میں کسی بھی عورت سے ملنے آنے والے ہر شخص کا باقاعدہ اندراج ہوتا جس میں اس شخص کی تفصیلات لکھی جاتیں۔ اسی طرح اگر کوئی کسی عورت کو شیطان پورہ سے باہر لے جانا چاہتا تو اس کو بھی اپنی تفصیلات بتانا ہوتیں اور اس کا بھی اندراج ہوتا۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے شیطان تو تفصیلات میں ہے۔ بدایونی لکھتے ہیں:

"کنواری لڑکیوں کے ساتھ پہلی رات گزارنے کی اجازت صرف شاہی دربار سے تعلق رکھنے والے امراء کو تھی اور اس کے لئے بھی ان کا نگران پہلے بادشاہ کو مطلع کر کے ان سے اجازت حاصل ہونے کے بعد ہی ہوتا تھا۔ بری شہرت والے بہت سے لوگوں نے بھی ناموں سے وہاں اپنا کاروبار جمع لیا تھا اور دھڑلے سے وہ لوگ اپنا کام بنا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے تھے۔ نشے میں لڑائیاں ہونا عام بات تھی جبکہ عورتوں کے چکر میں لوگ ایک دوسرے کو قتل بھی کر دیتے تھے۔ ایسے لوگ پکڑے بھی جاتے اور انہیں سزائیں بھی ملتیں لیکن پھر ان کی جگہ دوسرے لے لیتے اور وہ ایک بار پھر اسی دیدہ دلیری سے انہی حرکتوں میں لگ جاتے۔"

روز روز کی اس چک چک سے تنگ آ کر اور اپنے کچھ ناپسندیدہ درباریوں کو سزا دینے کا بہانہ ڈھونڈنے کی خاطر بادشاہ نے ایک چال چلی۔ اس نے چند اعلیٰ پائے کی طوائفوں کو وہاں بھیجا اور ان سے حلف لیا کہ وہ بادشاہ کو بتائیں گی کہ ان کے ساتھ پہلی رات کس درباری نے گزاری۔ مذہبی پیشواؤں اور عالموں کو اس معاملے کی بھنک مل گئی اور انہوں نے ان طوائفوں کو رشوت دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اس حوالے سے ان کے حریف درباریوں کے نام بادشاہ کو بتائیں گی۔ ان درباریوں میں ان کا سب سے برا حریف اور نشانہ ایک شخص تھا۔

اسی کے نتیجے میں بادشاہ کے نورتنوں میں سے ایک، ذہین راجہ بیربر تھا، جسے عرف عام میں بیربل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر دوسری طوائف نے اپنے پہلے ہم بستر کے طور پر اسی کا نام بتایا۔ چند نے تو اس حوالے سے اس کی اپنی بیٹیوں کے حوالے سے اس کے کردار کی کئی کہانیاں بھی بتائیں اور بدایونی نے یہ سب باتیں اپنی تاریخ میں درج کیں ہیں، جس کے بارے میں وہ لکھتا ہے کہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ باتیں سامنے آئیں لیکن اس حوالے سے کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ اسے ان پر یقین ہے (ص 497، آئی بی آئی ڈی)۔

بادشاہ نے جسے مناسب سمجھا سخت سزائیں دیں اور ان کو نشان عبرت بنا دیا اور کچھ کو لمبی قید میں ڈلوا دیا۔ اب قسمت میں کچھ ایسا لکھا تھا کہ ایسے وقت میں بیربل اپنی جاگیر کے دورے پر تھا لہٰذا دربار اور وہاں سے ملنے والی سزا سے بھی دور جو شاید اسے بھی قید میں ڈال دیتی۔ معاملات کے ٹھنڈا ہونے کے لئے درکار وقت حاصل کرنے کے لئے اس نے یہ بات پھیلا دی کہ وہ تو ایک جوگی بن گیا ہے اور اب وہ نہیں چاہتا کہ دنیاوی اور مادی معاملات میں الجھے۔

بعد میں بادشاہ بھی ٹھنڈا ہو گیا اور اس نے بیربل کے نام عام اور کلی معافی کا ایک فرمان بھی بھیجا۔

لیکن اس سب سے شیطان پورہ کے کاروبار پر منفی اثرات پڑے اور طوائفوں کو اپنے معاش کی فکر ستانے لگی۔ ان کی سمجھ میں آ گیا کہ ان کے لئے دوسرے شہر بھی کھلے ہیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے وہاں سے ہجرت کرنا شروع کر دی۔ دوسرے بھی وہاں سے جانے لگے۔

دوسری جانب چوہوں کو طوائفوں کا جانا اور افیم زدہ مٹھائیوں کا نہ ملنا بہت برا لگا۔ اور وہ آبائی زمین چھوڑنے کو بالکل تیار نہ تھے۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شہر میں رہ جانے والوں سے اس بات کا بدلہ لیا جائے، خاص طور پر ان کا نشانہ مذہبی پیشوا اور عالم تھے جنہیں ان کی کارستانیاں سہنی پڑیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان چوہوں نے زیر زمین رہنے والے دیوتاؤں سے دعا کی کہ وہ زمین کا پانی سکھا دیں اور پھر آہستہ آہستہ شہر کے کنویں سوکھنے لگے۔

جلد ہی وہاں زندگی گزرنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہو گیا۔ دارالحکومت لاہور منتقل ہو گیا اور چند ہی برسوں میں فتح پور سیکری ایک اجاڑ شہر کا منظر پیش کرنے لگا۔ کبھی کبھی کسی واقعے کے حوالے سے شہر کا نام سننے میں تو آتا لیکن مجموعی طور پر اسے بھلا ہی دیا گیا۔

دیواروں سے گھرے اس شہر پر اس کے بعد سے چوہوں کا قبضہ ہے جو آج تک وہاں موحود شاندار عمارتوں کے محافظ ہیں۔ اب بھی چودھویں چاند کی راتوں میں یہ چوہے پتھر کی ان راہداریوں پر رقص کرتے دیکھے جا سکتے ہیں، شاید وہ انسان کی نادانیوں کی وجہ سے حاصل ہونے والی فتح کا جشن مناتے ہیں!

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں