لاپتہ افراد کا کیس درج کرنے سے پولیس کا انکار

20 مارچ 2014
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے اسلام آباد کے سیکریٹیریٹ پولیس اسٹیشن میں لاپتہ افراد کے متعلق جو شکایت درج کرائی تھی، اسے پولیس نے باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں کیا۔ —. فائل فوٹو
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے اسلام آباد کے سیکریٹیریٹ پولیس اسٹیشن میں لاپتہ افراد کے متعلق جو شکایت درج کرائی تھی، اسے پولیس نے باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں کیا۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: دارالحکومت کی پولیس نے لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک کیس درج کرنے کی ہدایت کو نظرانداز کردیا ہے، اور اسے مردان میں متعلقہ پولیس اسٹیشن کے سپرد کردیا ہے۔ پولیس کے سینئر حکام نے ڈان کو بتایا کہ وہ کیس کے دائرہ کار کا تعین کرنے کے لیے مردان اور مالاکنڈ پولیس سے رابطہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے سیکریٹیریٹ پولیس اسٹیشن میں بدھ کے روز ایک شکایت درج کرائی تھی۔

اس میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد میں مالاکنڈ کے حراستی مرکز کے انچارج نائب صوبیدار امان اللہ اور دیگر کے خلاف ایک کیس درج کیا جاسکتا ہے، لہٰذا قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔

پولیس نے اپنے روزنامچے میں یہ شکایت درج کی تھی، لیکن اپنے سینئرز کی ہدایات پر اسے مردان میں کٹلانگ پولیس اسٹیشن بھیج دیا۔

اپنی درخواست میں وزیرِ دفاع نے کہا تھا: ’’لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک مقدمہ سپریم کورٹ کے سامنے زیرِ التوا ہے۔ ضلع مردان کی تحصیل کٹلانگ کے گاؤں غالہ کے رہائشی محبت شاہ نے اپنے بھائی یاسین شاہ کے سلسلے میں ایک درخواست عدالت میں دائر کی تھی، جو 2010ء سے لاپتہ ہیں، اور اب تک ان کے ٹھکانے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔‘‘

اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال چوبیس اکتوبر کوایک عدالتی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کے نام مالاکنڈ کے عدالتی لاک اپ کے سپریٹنڈنٹ کے ایک خط سے یہ انکشاف ہوا تھا، کہ 35 افراد جنہیں قیدی تسلیم نہیں کیا تھا۔

اس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب تک ان 35 افراد میں سے 28 افراد کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم ہوچکا ہے، اور ان میں سے کچھ کو سپریم کورٹ کے سامنے بھی پیش کیا جاچکا ہے۔ اب صرف سات افراد بشمول یاسین شاہ لاپتہ ہیں۔

خواجہ آصف کی جانب سے درج کرائی گئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ’’امان اللہ اور دیگر کو سپریم کورٹ کے دس دسمبر کے فیصلے کے مطابق لوگوں کو غیرقانونی طور پر اغوا اور قید میں رکھنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔‘‘

پولیس حکام کی رائے میں چونکہ ان لوگوں کو اسلام آباد سے نہیں اُٹھایا گیا تھا، چنانچہ دارالحکومت کی پولیس اس شکایت کو روزنامچے میں لکھ لیا تھا۔ یہ کیس اس علاقے کے پولیس اسٹیشن میں درج ہونا چاہیٔے، جہاں سے ان لوگوں کو اُٹھایا گیا تھا، یا جہاں انہیں لے جایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ شکایت کٹلانگ پولیس اسٹیشن کو بھیج دی گئی ہے، اس لیے کہ یاسین شاہ اس گاؤں کا رہائشی ہے، جو اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

پولیس حکام نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کٹلانگ پولیس نے یہ کیس درج کیا تھا۔ کٹلانگ پولیس اس شکایت کو مالاکنڈ حراستی مرکز بھیج سکتی ہے، اس لیے کہ ان قیدیوں کو وہیں لے جایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک پولیس افسر کو دائرہ اختیار کے معاملے پر بات چیت کے لیے کٹلانگ پولیس اسٹیشن بھیج دیا گیا تھا، اور اس بات چیت کے بعد اس کیس کو اسلام آباد میں درج کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں