توہینِ رسالت پر سزائے موت کا حکم۔ اپوزیشن کا احتجاج

29 مارچ 2014
قومی اسمبلی میں دو اہم اپوزیشن جماعتوں نے عدالت کی جانب سے ساون مسیح کو سزائے موت دینے کے حکم پر احتجاج کیا۔
قومی اسمبلی میں دو اہم اپوزیشن جماعتوں نے عدالت کی جانب سے ساون مسیح کو سزائے موت دینے کے حکم پر احتجاج کیا۔

اسلام آباد: پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی دو اہم جماعتوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مسیح شخص کو سزائے مات دینے کے فیصلہ کے خلاف گزشتہ روز ایوان میں احتجاج کیا، جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر نے انہیں اس پر بات کرنے سے روک دیا۔

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی شیرین مزاری اور پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے ملک میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کرنے کی شکایت کی اور کہا کہ انہیں خاص طور پر توہینِ رسالت کے الزامات کا نشانہ بنا جاتا ہے جس طرح ایک سال پہلے لاہور میں عیسائی آبادی والے علاقے جوزف کالونی میں ایک عیسائی شخص پر اپنے ایک مسلم دوست کے ساتھ بات چیت کے دوران توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا اور اس واقعہ کے بعد تقریباً تین ہزار سے بھی زائد لوگوں نے جوف کالونی میں داخل ہو کر 100 کے قریب مکانات اور املاک کو نذرآتش کردیا تھا۔

اس موقع پر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے نوجوان رہنماء اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز شریف کے اس بیان کو اپوزیشن کی دونوں جماعتوں کے اراکین نے حقیقت کے باعکس قرار دیا، جو سات مارچ 2013ء کے واقعہ پر صوبائی حکومت کی تشویش اور جوزف کالونی کے عوام کو ہرممکن مدد فراہم کرنے سے متعلق تھا۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایوان کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر مزید بات کرنے سے روک دیا۔

خیال رہے کہ سزا یافتہ ساون مسیح، جس پر اپنے ایک دوست کے ساتھ پراپرٹی کے تنازعہ کے دوران توہینِ رسالت کا الزام عائد کیا گیا، اس پر دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے جیل کے اندر موت کی سزا سنائی گئی ہے۔

تحریکِ انصاف کی شیرین مزاری نے اسے انصاف کی ایک خراب صورتحال قرار دی جس میں ان افراد کو رہا کردیاگیا جنہوں نے لاہور کی جوزف کالونی کو نذرآتش کیا، جبکہ صرف ایک شخص کو متنازعہ الزامات کے تحت موت کی سزا سنا دی گئی۔

انہوں نے اسی طرح کی صورتحال پر مزید کہا کہ سندھ میں بھی ہندو کمینٹی کے لوگوں کو اغوا کرکے اقلتوں کے ساتھ ظلم اور ستم کیا جا رہا ہے اور عیسائیوں پر توہینِ رسالت کے الزامات زیادہ تر صوبہ پنجاب میں عائد کیے جارہے ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے خاموش ہونے کی ہدایت کے باوجود وہ مسلسل اس معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی اس مسئلے پر توجہ مبزول کرواتی رہیں، یہاں تک کہ ایک ایڈیشنل اور سیشن جج چوہدری غلام مصطفیٰ نے جمعرات کو اس کا فیصلہ بھی سنا دیا، جبکہ اس فیصلے کے خلاف نہ ہی ابھی تک اعلیٰ عدالت میں کوئی درخواست دائر کی گئی ہے۔

ایوان میں حزبِ اختلاف کی ایک دوسری جماعت پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے جب دیکھا کہ ان کا مائیک بند کروادیا گیا ہے تو انہوں نے چلاتے ہوئے کہا کہ " ہم مایوس ہیں، ہم پریشان ہیں تو کچھ دیر کے لیے اس کو بحال کردیا گیا۔

اس موقع پر حمزہ شریف نے ایوان کو یاد دلایا کہ اس واقعہ کے بعد ان کے والد نے حکم دیا تھا کہ جوف کالونی کے تمام تباہ ہونے والے مکانات کی ایک رات کے اندر اندر تمیرِ نو کی جائے اور ساتھ ہی لوگوں کے گھروں میں شادی کے زیورات کے نقصانات پر انہیں معافضے دینے اور واقعہ کے ذمہ داروں کو انصاف کے کھٹرے میں لانے کا بھی حکم دیا تھا۔

لیکن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اراکین اس کے باوجود بھی غیر مطمئن نظر آئے اور ان میں سے متعدد افراد اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور ایوان سے واک آؤٹ کرنے کی تیاری شروع کردی، جبکہ اسی دوران جماعتِ اسلامی کے ایک رکن شی اکبر خان کھڑے ہوئے اور جمعہ کی نماز کا حوالہ دیتے ہوئے کیا کہ ایوان کی کارروائی کو فوری طور پر دو روز یعنی پیر کی شام 4 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں