دستور زباں بندی

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2014
تھر میں بچوں کی موت ہے ، یا کوٹ ادو میں ریپ کا شکار خاتون کی خودکشی یا لاہور میں نرسوں کی پٹائی--- سب کچھ روایتی پاکستانی ابہام میں لپٹا ہوا- ہمیں کبھی پتہ نہیں چلیگا کہ کون کس بات کیلئے ذمہ دار ہے-
فائل فوٹو۔۔۔
تھر میں بچوں کی موت ہے ، یا کوٹ ادو میں ریپ کا شکار خاتون کی خودکشی یا لاہور میں نرسوں کی پٹائی--- سب کچھ روایتی پاکستانی ابہام میں لپٹا ہوا- ہمیں کبھی پتہ نہیں چلیگا کہ کون کس بات کیلئے ذمہ دار ہے- فائل فوٹو۔۔۔

اپنے پہلے دلچسپ ناول، قیدی (The Prisoner)، میں عمرشاہد حامد نے بڑے دلفریب افسانوی انداز میں کراچی پولیس کی کارکردگی کے بارے میں تذکرہ کیا ہے- اس کتاب میں چند بہت ہی عمدہ جملے مرتضیٰ بھٹو کے آخری دنوں کے حوالے سے ہیں

حامد نے ان ہی معلومات اور خبروں پر انحصار کیا ہے جو کافی عرصے سے گردش کررہی ہیں، لیکن جب مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا سین دہرایا جاتا ہے اس وقت وہ بھی اپنے پڑھنے والوں کو غم و غصہ کی حالت میں ایک گو مگو کی کیفیت میں چھوڑ دیتا ہے- اس کہانی میں بھی، یہ حادثہ دھندلایا ہوا ہے اور آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا -

ممکن ہےکہ یہ حادثہ اسی طرح وقوع پذیر ہوا ہو، ممکن ہے نہ بھی ہوا ہو-

ایک دوسرا ایسا ہی قتل کا کیس، ایک اور پہلا ناول، چند سالوں پہلے، محمد حنیف نے بھی ہم میں سے زیادہ انتقامی جذبات رکھنے والوں کو ذہنی طور پر مطمئن ہونے کی ایک وجہ فراہم کی- اس کیلئے انہیں اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے ائرفورس کے ایک نوجوان فضائی افسر کا کردار تخلیق کرنا پڑا تھا جو بہاول پور میں اگست 1988ء میں فضائی دھماکے سے پہلے اس جنرل کو زہر دینے میں کامیاب ہوتا ہے-

حنیف کا ایک غاصب کو زیرکرنے کیلئے ایک عام پاکستانی کی صلاحیت کے بارے میں یہ منظرنامہ عموماً اس ملک کی روایت سے ہٹ کر ہے- یہ اسرار کی سرزمین ہے- اور ایک مرتبہ یہ جنم لے لیتی ہے تو پھر یہ اسی طرح قائم رہتی ہے، اس کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں، اس کی تہیں دبیز اور وقت کے ساتھ اس کی شاخیں پھیلتی جاتی ہیں-

ساٹھ سال پہلے کی بات ہے، سعادت حسن منٹو جیسی صلاحیت والا تحقیق کنندہ وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بارے میں چند برمحل چبھتے ہوئے سوالات اٹھانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکا- اور ساڑھے تین دہائیوں سے زیادہ گذر جانے کے باوجود، آج بھی ہم ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس طرح مارے گئے- ایک بھی مستند ثبوت اس بات کا آج تک نہیں ہے جو پاکستانی عوام کے لئے"عام طور پر" قابل قبول ہو-

بھٹو کی بیٹی، بےنظیر کیمروں کی آنکھوں کے سامنے ماردی گئی- وہ ایک بالکل الگ زمانہ تھا ان کے والد کےزمانے کےمقابلے میں- سراغوں کی موجودگی کے باوجود جو چیز ہاتھ میں ہے وہ صرف مختلف قسم کے نظریئے ہیں جو ایسے قتل کے ہوتے ہیں-

سب سے زیادہ تکلیف دہ وہ حصہ ہے جو بتاتا ہے کہ بے نظیر حقیقتاً کیسے مری تھیں: کیا وہ ایک گولی تھی یا بم یا دھماکے کا اثر موت کی وجہ تھی؟ یہ ایک نفرت انگیز منظر تھا جب، 28 دسمبر 2008ء کو، ایک فوجی اس واقعے کو دہرا رہا تھا کہ بم دھماکے کے اثر سے کیسے بے نظیر کا سر گاڑی کی چھت سے ٹکرایا-

یوں جیسے کہ ترجمان کے خیال میں جو ذمہ دار تھے وہ لوگ صرف ان حالات کے ذمہ دار تھے جن کی وجہ سے بے نظیر کی موت ہوئی- اگر کسی کو یہ خوش فہمی تھی کہ جمہوریت کی طاقت، میڈیا کی تیز نظریں اورخبروں کی آزادانہ ترسیل مستقبل میں صحیح جوابوں کو یقینی بنائیگی، تو وہ غلطی پر تھا

6 مارچ 2014ء کو، وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے اعلان کیا "ایڈشنل سشن جج رفاقت اعوان، جو اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ پر حملے میں سوموار (3 مارچ) کو مارے گئے تھے، وہ اپنے گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے "

چودھری نثار نے انکشاف کیا کہ "جج اعوان کو تین گولیاں لگی تھیں جب ان کے گارڈ نے گھبراہٹ میں اس وقت گولی چلائی جب نزدیک سے اسے دھماکے کی آواز آئی" اور " انہوں نے اسمبلی کے ممبروں کو خبردار کیا کہ 'جلدی میں نتیجے ' نہیں نکالیں کیونکہ اس سے جاری تحقیقات میں دخل اندازی ہوتی ہے، اورانہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ اس کے مرتکب لوگوں کا پتہ چلا لیا جائیگا اور انہیں سزا دی جائیگی"

اس بات پر کسی کو زیادہ ردعمل ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- سارے پاکستانی اس کے عادی ہیں کہ تحقیقات کرنے والے کتنا وقت لگاتے ہیں اور شاید کبھی اگر صحیح نتیجہ پر پہنچتے ہیں یقیناً ایسے نتیجہ پر جو حملہ آوروں کو قتل سے بری الذمہ نہیں قرار دیتا ہے تو پھر ان پر الزام یہ ہوتا ہے کہ اس حادثہ میں صرف ان کا تھوڑا حصہ تھا-

لیکں ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہئے- ممکن ہے یہ ایسے ہی ہوا ہو جیسے کہ چودھری نثار کہتے ہیں- انہوں نے تو حملہ آوروں پرکوئی الزام تک نہیں دھرا- لیکن سوال یہ ہے کہ ہم سب جو یہاں کے رہنے والے ہیں ایک ایسی جگہ کے جہاں ہمیشہ اسی طرح کے مہلک اور تباہ کن واقعات ہوتے رہتے ہیں، اور ہم سب اس ہمت اور توانائی سے محروم ہیں کہ اس کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کریں- ہم شاید یہ سب معلوم کرنے سے بھی ڈرتے ہیں-

اور جب ہمیں ڈر نہیں لگتا ہے، تو ہمیں پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے- ہمیں شرم آتی ہے یہ پوچھتے ہوئے کہ وہ کون سی پری ہے جس نے چپ چاپ ہمارے تکیہ کے نیچے ڈیڑھ بلین ڈالر کا چھوٹا سا تحفہ رکھ دیا ہے- وہ ایک آسمانی تحفہ تھا جیسا کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے فرمایا کہ ہمیں صرف پھل سے مطلب ہونا چاہئے اور درختوں کو گننےکا کام حکومتی عہدے داروں پر چھوڑ دینا چاہئے جیسے کہ موصوف خود-

اور جب آخرکار اس ذریعہ کا انکشاف ہوتا ہے، راز راز ہی رہنا چاہئے؛ پاکستانیوں کو اس بات پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس زرخیز زمین میں اس رقم کا تحفہ کیا بیج بوئے گا- حکومت کا ہر اہم فرد ہمارے اندر جتنے احسان فراموش ہیں ان کو شور مچاکر خاموش کرانے کا ذمہ لئے ہوئے ہے کہ ہمارے الٹے دماغوں میں یہ بات آئی کیسے کہ ہم اس سعودی تحفہ کو شبہہ کی نظر سے دیکھیں- سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ ہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان توازن رکھ سکتے ہیں اور بس اتنا جواب ہمارے لئے کافی ہونا چاہئے-

یہ تحفہ قبول کر لینا پاکستان کے قومی مفاد میں ہے، اس کا مقصد وغیرہ، پردے میں ہے- لیکن ہماری اس پیاری سرزمین میں ریاست اور حکومت اور بھی جو کام کرتی ہے اس میں کوئی نہ کوئی راز ضرورہوتا ہے- اسی لئے ہماری حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی جب طالبان نے خوشدلی کے مظاہرے کے طور پر عورتوں اور بچوں کو رہا کرنے کے لئے کہا تاکہ ریاست اور عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات جاری رہ سکیں-

تو کیا، پھر، یہ بھی وہی دوسری بات ہے جس کی سچائی کو برداشت کرنا ہماری کمزور حیثیت کیلئے مشکل ہے؟ اس کے بعد جو چیز سامنے آئیگی وہ تھر میں بچوں کی موت ہے ، یا کوٹ ادو میں ریپ کا شکار خاتون کی خودکشی یا لاہور میں نرسوں کی پٹائی--- سب کچھ روایتی پاکستانی ابہام میں لپٹا ہوا- ہمیں کبھی پتہ نہیں چلیگا کہ کون کس بات کیلئے ذمہ دار ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں