لاپتہ افراد کی کہانی کا دوسرا رخ

30 اپريل 2014
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی ہیں۔— تصویر بشکریہ تنویر شہزاد
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی ہیں۔— تصویر بشکریہ تنویر شہزاد

اسلام آباد: جبری گمشدگیوں کے لیے ڈیفنس آف ہیومن کے دھرنے میں اسلام آباد پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ وسطی پنجاب میں لاپتہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اس خطے سے لوگوں کا لاپتہ ہونا نسبتاً ایک نیا رجحان ہےکیونکہ ماضی میں ایسی جبری گمشدگیاں صوبے کے جنوبی حصے سے ہو رہی تھیں۔

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے چاولوں کے تاجر جاوید سلمان اپنی بیوی اور بچوں سمیت دھرنے میں شریک تھے۔

خوش لباس سلمان نے بتایا کہ وہ یہاں اس لیے آئے ہیں کہ میرے کچھ دوستوں کو اٹھا لیا گیا ہے اور اب ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

ڈی ایچ آرکے محمد کامران نے بتایا کہ تقریباً پچھلے ایک سال سے وسطی پنجاب میں لوگ لاپتہ ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

'آج سے دو سال پہلے تک اس طرح کی جبری گمشدگیاں صرف جنوبی پنجاب تک ہی محدود تھیں'۔

منگل کو دھرنے میں سیالکوٹ، فیصل آباد اور لاہور جیسے شہروں سے آئے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی، لیکن ان سب میں یہی ایک عنصر مشترکہ نہیں۔

سیالکوٹ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ( ایم جے اے ایچ) کے ناظم مفتی کفایت اللہ نے ڈان کو بتایا کہ پچھلے ایک سال میں ان کے سات ساتھی لاپتہ ہو چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک کا تعلق فیصل آباد جبکہ تین کا لاہور اور سیالکوٹ سے ہے۔

دھرنے میں شریک کچھ لوگوں نے بتایا کہ وہ سیالکوٹ کے حافظ عبدالجبار شاکرکے مرید ہیں۔

شاکر ایم جے اے ایچ میں ساجد میر گروپ سے جڑے ہیں۔

کفایت اللہ کے مطابق حتیٰ کہ شاکر کو رواں سال جنوری میں سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے اٹھا لیا تھا۔

فیصل آباد سے آئے ایک تاجر شیخ فرحان نے بتایا کہ وہ شاکر کےخطبوں میں شرکت کرنے کے علاوہ ان کے یہاں آنے پر ان کے ساتھ عبادت کرتے تھے۔

'بہت افسوس کی بات ہے کسی کو بھی ان کی کوئی معلومات نہیں'۔

شیخ کے مطابق، انہوں نے ذاتی طور پر قانون نافذ کرنے والے حکام سے شاکر صاحب کے لاپتہ ہونے کے بارے میں پوچھا تھا، لیکن انہوں نے بتایا کہ پولیس کا اس معاملہ سے کوئی واسطہ نہیں۔

کفایت اللہ کہتے ہیں کہ ایم جے اے ایچ سیاست میں متحر ک نہیں لیکن حافظ شاکر سمیت حال ہی میں تنظیم میں شامل ہونے والے افراد ماضی میں جماعت الدعوہ سے تعلق رکھتے تھے۔

برادری میں شامل دوسروں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھیوں کی جبری گمشدگیوں کے پیچھے انہی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے حریف گروہوں کا ہاتھ ہے۔

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت حافظ مزمل نے ڈان کو بتایا کہ ' کچھ پرانے ساتھی حافظ شاکر کے سات سو کارکنوں سمیت ایم جے اے ایچ میں شمولیت پر خوش نہیں تھے'۔

اہل حدیث مکتبہ فکر کے اندر تین اہم تنظیمیں موجود ہیں۔ان میں سب سے بڑی حافظ محمد سعید کی جماعت الدعوہ ہے۔

جے یو ڈی کو بنانے والوں میں کالعدم لشکر طیبہ کے سابق کارکنوں کا ہاتھ تھا۔

دوسرا گروہ ایم جے اے ایچ ہے جس کے بہت سے رضاکار ہیں لیکن وہ زیادہ ترمذہب کی تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں۔

تیسری تنظیم ابتسام الہی ظہیر کی جماعت اہل حدیث ہے۔تاہم اس گروپ کے ماننے والے زیادہ نہیں۔

سیکورٹی ذرائع کے مطابق، اہل حدیث کے کارکن عام طور دہشت گردی یا عسکریت پسندی میں ملوث نہیں، اور اسی وجہ سے دھرنے میں ان کی موجودگی کی وجوہات تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

تاہم، اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک انٹیلجنس افسر نے تسلیم کیا کہ ان تنظیموں کے زیادہ تر کارکنوں کا ریکارڈ صاف ہے لیکن حالیہ ایسی رپورٹس آئی ہیں کہ اہل حدیث کے کچھ کارکن شدت پسندی میں ملوث ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے علاوہ کچھ منتخب کارکنوں کی مکمل نگرانی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے کہا کہ تشدد پسند کارکن اکثر اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے دائیں بازو اور مذہبی تنظیمیں میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

انہوں نے نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ میجر جنرل (ر) فیصل علوی کو دوسری تنظیم میں شامل لشکر طیبہ کے ایک سابق کارکن نے ہلاک کیا تھا۔

عائشہ کے مطابق، لشکر طیبہ نے ماضی میں کبھی بھی ریاست یا اس کے نمائندگی کرنے والوں کو نشانہ نہیں بنایا تھا۔

یاد رہے کہ عسکریت پسندوں کا نشانہ بننے والے علوی نے 2004 میں انگور اڈہ آپریشن کی نگرانی کی تھی۔

ڈی ایچ آر کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ اس طرح کے دھرنوں اور احتجاج میں اپنے پیاروں کو کھو جانے والے شریک ہوتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے امید چھوڑ دی اور اب وہ یہاں نہیں آتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں