عرب دنیا میں اخبارات کا خاتمہ قریب

اپ ڈیٹ 21 مئ 2014
۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

دبئی: عرب دنیا میں اخبارات کا وجود اس وقت سے پہلے ہی معدوم ہونے جارہا ہے، جس وقت کے بارے میں پیشگوئیاں کی گئی تھی۔

اس کی وجہ ایک اہم محقق کے مطابق یہ ہے کہ اس خطے میں سوشل میڈیا کے اثرات بہت تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں۔

مصنف روز ڈاؤسن نے 2010ء میں ایک مضمون ’’اخبارات کے خاتمے کی ٹائم لائن‘‘ شایع کیا تھا، اب ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ان پیشگوئیوں پر نظرثانی کررہے ہیں، جب عرب دنیا میں اخبارات کی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہے گی۔

اس سے پہلے ان کی پیشگوئی یہ تھی کہ متحدہ عرب امارات میں اخبارات 2028ء میں اور سعودی عرب میں 2034ء تک ختم ہوجائیں گے۔

لیکن دبئی میں منعقدہ عرب میڈیا فورم کے ایک اجلاس میں روز ڈاؤسن نے کہا کہ عرب دنیا سے اخبارات کاخاتمہ کافی عرصہ پہلے ہی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار اُٹھان کو دیکھتے ہوئے اب یہ کہنا چاہیٔے کہ ایسا کئی سال پہلے ہی ہوسکتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ دبئی میں عرب میڈیا فورم کے تحت تیرہواں دو روزہ اجلاس کل سے شروع ہوا ہے، جس میں سیاست، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیااور زندگی کے دوسرے اہم شعبوں سے معروف شخصیات شرکت کررہی ہیں۔

اس اجلاس میں متنوع شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس بات پر غور کررہے ہیں کہ فیس بک اور ٹوئیٹر جیسے ذرائع کی آمد کے بعد دنیا میں جمہوری قدریں مضبوط ہوئی ہیں۔

عرب میڈیا فورم کے اجلاس سے یہ حقیقت اُجاگر ہوئی کہ ترقی یافتہ خلیجی اقوام میں سوشل میڈیا کا استعمال انتہائی حد تک زیادہ ہوچکا ہے۔ سعودی عرب میں یوٹیوب کی وڈیوز کی کھپت فی کس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جبکہ ٹوئیٹر اور فیس بک کے استعمال کی شرح بھی کافی بلند ہے۔

یہی وہ اہم وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر روز ڈاؤسن نے اپنی پیشگوئی پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ترقی یافتہ عرب اقوام میں طبع شدہ اخبارات کے بجائے دیگر متبادل ذرائع سے خبریں حاصل کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے ، اور اخبارات پڑھنے کی شرح کم سے کم ہوتی جارہی ہے، چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں اخبارات کا قبل از وقت خاتمہ ہوجائے گا۔‘‘

ڈاؤسن کا کہنا ہے کہ یہاں تک کہ قطر میں متحدہ عرب امارات سے پہلے ہی اخبارات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

چار سال پہلے انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ توقع ہے کہ امریکا میں اخبارات 2017ء میں معدوم ہوجائیں گے۔

روز ڈاؤسن کی تعریف کے تحت جب اخبارات کی کل اشتہاراتی آمدنی کے ڈھائی فیصد سے کم کشش رہ جاتی ہے تو انہیں معدوم قرار دے دیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے عوامل بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں طبع شدہ اخبارات کا وجود برقرار رہ سکتا ہے۔ ان عوامل میں تارکین وطن کی آبادی اور میڈیا کو کی جانے والی سرکاری امداد شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان ممالک میں ایسے مقامات جہاں اخبارات باقی رہ جائیں گے، وہ تارکین وطن کی آبادیاں ہوں گی، جہاں ان کے لیے خصوصی طور پر شایع ہونے والے اخبارات فروخت ہوں گے۔

اس کے علاوہ حکومت بھی براہِ راست یا بالواسطہ طبع شدہ اخبارات کی مدد کرسکتی ہے، اس لیے کہ ان کا خیال ہے کہ اس سے انہیں سیاسی یا سماجی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

ڈاؤسن کی پیشگوئی کے باوجود اخبارات اب بھی اشتہارات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا دیگر مارکیٹوں میں پرنٹ میڈیا پر غالب نہیں آسکا ہے۔

پھر بھی تجربہ کار اخباری صحافیوں نے اس امکان کے پیشِ نظر کے پرنٹ میڈیا کے دور کا خاتمہ قریب ہے، اپنے اداروں سے استعفے دینے شروع کردیے ہیں۔

سعودی گزٹ کے ایڈیٹر خالد المائنہ کا کہنا ہے کہ وہ ڈاؤسن کی پیشگوئیوں سے مکمل طورپر متفق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں دیکھ سکتا ہوں کہ ایسے اخبارات جن کی ایک لاکھ چالیس ہزار کاپیاں فروخت ہوتی تھیں، اب ان کی فروخت اس حد تک گرگئی ہے کہ سعودی عرب اور اس خطے کی دوسرے مقامات پر ان کی چالیس سے پینتالیس ہزار کاپیاں ہی فروخت ہوپاتی ہیں۔

خالد المائنہ نے اس کی وجہ نوجوان نسل میں اخبارات پڑھنے کے رجحانات میں کمی اور اخبارات کی پرنٹنگ اور تقسیم کے اخراجات کو قرار دیا۔

عرب ماہرین اور معروف شخصیات کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بھی اس میں شرکت کی، ان میں ایسوسی ایٹیڈ پریس کے اعلٰی سطحی رکن جان ڈینس زیواسکی بھی شامل تھے۔

انہوں نے منگل کی سہہ پہر کو ’’اس خطے میں نیوز میڈیا کا مستقبل‘‘ عنوان پر مباحثے میں حصہ لیا۔ اس اجلاس کی میزبانی العربیہ نیوز کے ایڈیٹر انچیف فیصل جے عباس نے کی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Salim Haidrani May 21, 2014 10:15pm
The death of Arab Press and Newspapers is not linked to the popularity of social media: Facebook etc - the truth is that Arab dictators have their own own press and journalists and these newspapers are not read by any Arab Common Person because they know these publications are the property of Royal Houses and Arab Sheiks. London's most newspapers which publish in Arabic are the property of rich royal families from the Gulf and the Saudi Kindom. The Arab press will survive and will continue to survive if democracy takes roots in the Arab World. I hope and I expect Democracy will save newspapers all over the world.
DR HASNAIN May 24, 2014 09:59am
IT IS VERY SURPRISED NEWS ? STREETS NEWS VERY COMMON FROM PRINT MEDIAS