انڈین وزیر نے گریجویشن پہلے کیا، کالج بعد میں قائم ہوا

اپ ڈیٹ 02 جون 2014
ہندوستان کے دیہی ترقی کے وزیر گوپی ناتھ منڈے۔ —. فوٹو پریس ٹرسٹ آف انڈیا
ہندوستان کے دیہی ترقی کے وزیر گوپی ناتھ منڈے۔ —. فوٹو پریس ٹرسٹ آف انڈیا

نئی دہلی: ہندوستان کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کی تعلیمی قابلیت پر کانگریس کی جانب سے سوالات کھڑے کرنے کے بعد دیہی ترقی کے وزیر گوپی ناتھ منڈے کے حوالے سے بھی اسی طرح کے سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔

پریس ٹرسٹ انڈیا کے حوالے سے اکنامک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گوپی ناتھ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے گریجویٹ 1976ء میں کیا تھا، جبکہ انہوں نے جس کالج سے گریجویشن کیا تھا، وہ 1978ء میں قائم ہوا تھا۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری شکیل احمد نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے ٹوئیٹ میں تحریر کیا کہ ’’سوشل میڈیا بے جی پی کے رہنما اور دیہی ترقی کے وزیر گوپی ناتھ منڈے کی اس عظیم کامیابی پر بحث کررہا ہے، انہوں نے جس کالج سے 1976ء میں گریجویٹ کیا، اس کا قیام ہی 1978ء میں عمل میں آیا تھا۔‘‘

گوپی ناتھ نے 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات کے لیے جو حلف نامہ الیکشن کمیشن کو جمع کرایا تھا، اس میں درج ہے کہ انہوں نے اپنی بی جے ایل کی ڈگری نیو لاء کالج پونے سے 1976ء میں حاصل کی تھی۔ یہ حلف نامہ ہندوستانی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

پونے کا نیو لاء کالج خود اس کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق 1978ء میں قائم ہوا تھا۔

اکنامک ٹائمز کے مطابق جب گوپی ناتھ منڈے سے بذریعہ ٹیلی فون اور ٹیکسٹ میسیجز کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ وہی نیو لاء کالج ہے جس کا ذکر منڈے نے اپنے حلف نامے میں کیا ہے تو انہوں نے کالج شروع ہونے سے دو سال پہلے ہی ڈگری کس طرح حاصل کی؟

یہ باتیں عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر گوپی ناتھ منڈے مذاق کا موضوع بن گئے ہیں۔ بہرحال ابھی یہ بات واضح نہیں ہو پائی ہے کہ اس میں کوئی تکنیکی خامی ہے یا ٹائپنگ کی غلطی کیونکہ ابھِی تک اس معاملے پر گوپی ناتھ منڈے کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر مودی کابینہ مذاق کا موضوع بنتی جا رہی ہے۔ فیس بک اور واٹس اپ پر دیگر وزیروں کی تعلیمی قابلیتیں بھی پیش کی جا رہی ہیں کہ مودی کابینہ کے نصف سے زائد اراکین کے پاس پانچویں تا بارہویں تک ہی تعلیم ہے۔

اس سے قبل ہندوستان کی نوزائیدہ مرکزی حکومت سمرتی ایرانی کے معاملے الیکشن کمیشن کو غلط معلومات دینے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن چکی ہے اور ابھی یہ معاملہ سرد بھی نہیں پڑا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمرتی ایرانی سے متعلق اس راز کو فاش کرنے پر دہلی یونیورسٹی کے پانچ اہلکار کو برطرف بھی کر دیا گیا ہے۔

کانگریس کے جنرل سیکرٹری دگوے سنگھ نے دہلی یونیورسٹی کے 5 ملازمین کی معطلی کے حوالے سے مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہی حکومت کی شفافیت ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں