کراچی میں ادیبوں کی بیٹھک کے لیے گوشۂ مصنفین

نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر انعام الحق جاوید، انجمن ترقی اردو کے گوشہ مصنفین کے افتتاح کے موقع پر خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار
نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر انعام الحق جاوید، انجمن ترقی اردو کے گوشہ مصنفین کے افتتاح کے موقع پر خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار

کراچی: گلشن اقبال میں انجمن ترقیٔ اردو کے دفتر پر نو تعمیر شدہ گوشۂ کتب، گوشۂ مصنفین اور چائے خانہ کے افتتاح کے موقع پر بدھ کی شام معزز ادبی شخصیات اکھٹا ہوئیں۔

اس پروگرام میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر انعام الحق جاوید نے اپنے ادارے کے مسائل اور ان پر قابو پانے کے اپنے منصوبوں پر روشنی ڈالی۔

انعام الحق جاوید نے کہا کہ میں نے لاہور، اسلام آباد اور فیصل آباد میں قائم ہمارے دفاتر میں ہزاروں کتابیں دیکھیں، جنہیں کوئی خریدنے والا نہیں تھا۔ اس صورتحال کی تلافی کی ضرورت ہے۔ میں نے چند یونیورسٹیوں سے بات کی ہے کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی شایع کردہ کتابیں انہیں فراہم کردی جائیں، اس سے طالبعلموں میں دلچسپی بھی پیدا ہوگی اور وہ آسانی سے ان کو خرید سکیں گے۔

انہوں نے محسوس کیا کہ پبلشروں نے خریدو فروخت کے اداروں کو گڈمڈ کردیا تھا، اور قارئین کو کتابوں سے دور کردیا تھا، جو حد سے زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کتاب خریدنے کے قابل نہیں تھے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے بتایا کہ چھوٹے شہروں میں قائم 72 بک شاپس کو فاؤنڈیشن نے اپنے پینل میں شامل کرلیا ہے۔

اس کے علاوہ ایک بک کلب کی رکنیت کی اسکیم بھی شروع کی گئی ہے، جس کے تحت طلباء رعایتی قیمت پر کتابیں خرید سکتے ہیں۔

تقاریر کے بعد انجمن ترقیٔ اردو کے اعزازی صدر آفتاب احمد خان اور انعام الحق جاوید نے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔

انجمن ترقیٔ اردو کی اعزازی سیکریٹری فاطمہ حسن نے بعد میں اس یادداشت کے مقاصد پڑھ کر سنائے۔

اس یادداشت میں کہا گیا تھا کہ ’’انجمن ترقیٔ اردو کی شایع کردہ کتابیں اور جرنلز نیشنل بک فاؤنڈیشن کی بک شاپس پر فروخت کی جائیں گی۔ اسی طرح فاؤنڈیشن کی شایع کردہ کتابوں کو انجمن اور اپنے اسٹالز پر فروخت کرے گی۔

کتابی میلوں میں انجمن، فاؤنڈیشن کی مطبوعات کو فروخت کری گی، فاؤنڈیشن بھی ایسا ہی کرے گی۔

اس کے علاوہ قومی و بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں انجمن اور فاؤنڈیشن کے نمائندگان اکھٹے شرکت کریں گے۔

اور فیصلہ کن نکتہ یہ ہے کہ دونوں ادارے نصاب اور ادب سے متعلق معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مشورہ کریں گے۔‘‘

کراچی کے ایڈمنسٹریٹر رؤف اختر فاروقی نے اپنی مصروفیات کے باوجود اس تقریب میں شرکت کی اور اپنے مختصر خطاب میں کہا ’’مجھے اس طرح کے ایک بڑے اجتماع کو یہاں دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ہے، جس سے اردو زبان میں جاری دلچسپی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ تاہم یہاں میں مزید نوجوانوں کی شرکت چاہتا ہوں۔ نوجوان آپ کے مشن کو آگے لے جائیں گے، اس لیے نوجوانوں کی فعال شرکت کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے اردو زبان میں کتابوں اور جرنلز کی سستے داموں فروخت پر زور دیا۔

تقاریر کے بعد مہمانان گرامی جن میں پروفیسر سحر انصاری، ڈرامہ رائٹر حسینہ معین، اداکار و اینکر راجو جمیل، کالم نگار احمد سبزواری، شاعرہ زاہدہ حنا، شاہدہ حسن، افضال احمد سید، نقاد آصف فرخی، پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈاکٹر سید جعفر احمد شامل تھے، کو سجی سجائی چائے شاپ اور کتابوں کے اسٹال پر لے جایا گیا۔

رؤف اختر فاروقی، انعام الحق جاوید اور آفتاب احمد خان نے ربن کاٹ کر اس کا افتتاح کیا۔

افتتاح کے موقع پر بات کرتے ہوئے فاطمہ حسن نے کہا کہ ’’یہ عمارت صرف 39 دنوں میں تعمیر ہوئی ہے، اور اس کی نگرانی ہماری تعمیراتی کمیٹی کی جانب سے کی گئی، جس میں آرکیٹیکٹ اور انجینئر حیات امروہوی، اکرام اللہ شوق، شوکت علی زیدی، احمد حسین اور علی خرم شامل ہیں۔ اس منصوبے پر لگ بھگ پانچ لاکھ روپے کی لاگت آئی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’تقریباً بیس سے پچیس ریسرچ کرنے والے طلبا ہماری لائبریری میں مطالعہ کرتے ہیں، لیکن انجمن میں ان کے لیے کوئی کینٹین نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ہم چاہتے ہیں کہ مصنفین گوشۂ مصنفین میں آئیں، جہاں وہ ادبی مسائل پر بات چیت اور بحث کرسکتے ہیں۔ ہم نے انجمن کی جانب سے شایع کی جانے والی کتابوں کی فروخت کے لیے بھی جگہ بنائی ہے۔‘‘

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انجمن ترقی اردو ، اردو باغ کے جرأت مندانہ منصوبے پر کام کررہی ہے، جو یونیورسٹی روڈ پر گلستانِ جوہر میں واقع ہے۔ اس باغ کی تعمیر کی نگرانی تعمیراتی کمیٹی کی جانب سے کی جارہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں