ورلڈکپ فائنل میں کل کسی طوفان کی طرح آگے بڑھنے والے جرمن کھلاڑی ٹائٹل کے حصول کے لیے ارجنٹائن کا سامنا کریں گے اور یہ ٹائٹل وہ اسی صورت میں ہی جیت سکیں گے جب وہ اپنے پہچان سمجھی جانے والی رفتار، صلاحیت اور اعتماد کا ایک بار پھر مظاہرہ کریں گے۔

اگرچہ فٹبال میرا پہلا پیار ہے اور کرکٹ جنون اور میرا پیشہ بھی، میں گزشتہ برسوں میں کبھی اس کھیل سے اپنا رابطہ ختم نہیں کرسکا جو دنیا بھر میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔

مجھے رواں ورلڈکپ کے زیادہ مقابلے دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا مگر میں جب بھی ٹیلیویژن دیکھ سکا تو ہمیشہ جرمن ٹیم کو ہی فتح کا حقدار پایا، جن کی آﺅٹ فٹ بہترین ہے اور صلاحیت تو بے مثال ہے ہی۔

اس سے مجھے وہ جرمن ٹیم یاد آگئی جسے 1966ءکے ورلڈکپ کے فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں ویمبلے میں اس وقت متنازعہ شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انگلش اسٹرائکر جیف ہرسٹ نے ہیٹ ٹرک اسکور کیا تھا، اور یہ اب تک کسی بھی ورلڈکپ فائنل میں واحد ہیٹ ٹرک بھی ہے، جسے اسٹیڈیم میں موجود 96 ہزار سے زائد افراد کے ساتھ میں نے بھی دیکھا تھا۔

جرمنی اس وقت تقسیم شدہ ملک تھا، مشرقی جرمنی دیوارِ برلن کے پیچھے چھپا ہوا تھا جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونسٹ روس کا قبضہ تھا، نوّے کی دہائی کے بعد ہی دیوار برلن کو گرا کر جرمن قوم دوبارہ متحد ہونے میں کامیاب ہوسکی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ 1966ء میں وہ مغربی جرمنی کے نام سے کھیل رہے تھے اور فائنل میں پہنچنے سے پہلے ان کے خلاف صرف دو گول ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب پرتگال کے خلاف سیمی فائنل تک تو انگلینڈ پر ایک گول بھی نہیں کیا جاسکا تھا۔

ایونٹ کے ابتدائی مرحلے میں برازیل کے عظیم کھلاڑی پیلے اور پرتگالی لیجنڈ یوسوبیو کو کھیلتے دیکھنا زندگی بھر یاد رہنے والا تجربہ تھا، مگر فائنل میں مجھے جس جگہ بیٹھنے کا موقع ملا وہاں سے میں انگلش کپتان بوبی مورے اور جرمن کیپٹن فرانکس بیکینبیور کو اپنے اسکواڈز کو گراﺅنڈ میں لانے کا بہترین نظارہ دیکھنے کو ملا۔

انگلینڈ نے یہ فائنل اضافی وقت میں 4-2 سے جیت لیا تھا، مگر یہ اس متنازعہ گول سے پہلے نہیں ہوا تھا جس کی شکایت کرتے ہوئے جرمن کھلاڑی کہتے ہیں کہ انہیں ٹائٹل سے محروم کیا گیا۔

انگلینڈ کو اس زمانے میں ونگرز کی کمی کا سامنا تھا مگر افرادی لحاظ سے وہ سخت جرمن حریف کو ٹکر دینے کے قابل تھے۔

پہلا گول ہیلمیوٹ ہیلر کی جانب سے ہوا مگر انگلش اسٹرائکر ہرسٹ نے ہیڈر پر میچ پہلے ہاف پر ایک، ایک سے برابر کردیا، مارٹین پیٹرز نے انگلینڈ کی جانب سے دوسرا گول اسکور کیا مگر کچھ دیر بعد ہی جرمنی کے وولف گینگ ویبر نے گول کرکے میچ پھر برابر کردیا۔

اضافی وقت میں فوف ہرسٹ نے نے گیند کو کک لگائی اجو کراس بار سے ٹکرائی اور نیچے گول لائن پر گر گئی جسے گول کیپر نے اٹھالیا، ڈچ ریفری گوٹی فیلڈ ڈینیسٹ اسے گول قرار دینے کے بارے میں پر یقین نہیں تھا تو اس نے روسی لائنز مین توفیق بہرامو سے مشورہ کیا کہ گیند نے گول لائن کو مکمل طور پر عبور کیا تھا یا نہیں اور اس کی تصدیق پر گول قرار دے دیا گیا۔ جس پر جرمن ٹیم نے احتجاج کیا کہ یہ گول نہیں۔

ہرسٹ نے کافی فاصلے سے ایک اور شاٹ مار کر گول کرکے تاریخی ہیٹ ٹرک کا اعزاز حاصل کیا، کارلٹن برادرز بوبی اور جیکی بوبی مورے کے گلے لگ گئے جبکہ فائنل وسل کے بعد گول کیپر گورڈن بینک بھی اپنے کپتان سے لپٹ گیا اور برطانوی تماشائی خوشی کے نعرے لگانے لگے، دوسری جانب جرمن کھلاڑی اپنے خلاف متنازعہ گول کے فیصلے پر غصے اور بیزاری کے ساتھ بیٹھ گئے۔

جس وقت میں اپنے دوست کے ساتھ واپس گھر پہنچا تو پورے انگلینڈ میں جشن کا آغاز ہوچکا تھا، اپنے ملک کی ورلڈکپ میں پہلی فتح پر گلیاں گاڑیوں کے ہوٹرز کے شور سے گونج اٹھی تھیں۔

میں نے ریڈیو پر سنا کہ انگلش وزیراعظم ہیرولڈ ولسن ٹیم کے ہمراہ میرے اپارٹمنٹ کے پیچھے واقع ہوٹل پہنچے ہیں تو میں بھی اس منظر کو دیکھنے کے لیے جلدی سے وہاں پہنچا۔

کنگسٹن کے رائل گارڈن ہوٹل کی بالکونی میں پوری انگلش ٹیم اپنے وزیراعظم کے ہمراہ ورلڈکپ ٹرافی اٹھائے کھڑی تھی۔

اس کے بعد سے انگلینڈ کو اس کھیل میں اس طرح کی کارکردگی دکھانے کا موقع نہیں ملا اور وہ دوبارہ کبھی فائنل میں بھی نہیں پہنچ سکا، مگر جرمن ٹیم کی متاثر کن کارکردگی کا سلسلہ جاری رہا اور وہ اس مرتبہ بھی فائنل میں پہنچ گئے ہیں، وہ کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

میں ٹرینٹ برج میں ہونے کی وجہ سے فائنل میچ سے تو بہت دور ہوں مگر یقین دلاتا ہوں کہ ٹی وی پر یہ ضرور دیکھوں گا۔ شاید لیوئنل میسی اور ان کی ٹیم تمام تر مشکلات کے باوجود جرمن ٹیم کو اس سخت فائنل میں روکنے میں کامیاب ہوسکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں