لیبیا کا بین الاقوامی فوج کی مدد لینے پر غور

طرابلس ائرپورٹ  پرحالیہ حملے میں 90فیصد طیارے تباہ ہوگئے ہیں۔۔۔ فوٹو اے ایف پی
طرابلس ائرپورٹ پرحالیہ حملے میں 90فیصد طیارے تباہ ہوگئے ہیں۔۔۔ فوٹو اے ایف پی

طرابلس : لیبیا کی حکومت نے ملک میں جاری بے امنی کے باعث بین الاقوامی افواج کو قیام امن کے لیے بلانے پر غور شروع کر دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قیام امن اور حکومت کی عملداری قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی افواج سے مدد لینے پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔

حکومتی ترجمان نے مزید کہا ہےکہ بین الاقوامی فوج عام شہریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انتشار پر قابو پانے اور ملکی فوج و پولیس کے قیام میں مدد کرے گی۔

واضح رہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں ائرپورٹ پر حملے میں 90فیصد طیارے تباہ ہوگئے تھے، اس حملے میں ایک سیکیورٹی گارڈ ہلاک اور چھ دیگر افراد زخمی ہوئے تھے۔

طرابلس کے ہوائی اڈے پر شدت پسندوں نے متعدد میزائل داغے جس کے باعث پارکنگ ایریا میں کھڑے 90فیصد طیارے تباہ ہوگئے۔

حملے میں ائرپورٹ کی کسٹم بلڈنگ، کنٹرول ٹاور، فیول ٹینکس، ٹرک، گاڑیاں اور دیگر تنصیبات بھی تباہ ہوگئی تھیں۔

ائر پورٹ پر حملے سے قبل ہی بے امنی کے باعث تین روز سے پروازوں کی آمد اور روانگی بند تھی مگر حملوں کے بعد ائرپورٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے، جس کے بعد لیبیا کا پوری دنیا سے فضائی رابطہ منقطع ہے۔

رپورٹس کے مطابق اتوار سے جاری حملوں میں اب تک 15 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

لیبیا میں طویل عرصے سے عسکریتوں پسندوں اور لبرل ملیشیا کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ نےبھی سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر لیبیا سے اپنے عملے کو بلا لیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایس ایم آئی ایل( یونائیٹڈ نیشنز سپورٹ میشن ان لیبیا) نے بیان میں کہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ادارے کے لیے اپنا کام جاری رکھنا مزید ممکن نہیں ہے، طرابلس ائر پورٹ پر حملوں کے بعد اس کی بندش سے مشن کے عملے کی حفاظت بھی ممکن بنانا ضروری ہے، امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے پر اقوام متحدہ کا عملہ دوبارہ آ جائے گا۔

دوسری جانب رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کا عملہ سڑک کے ذریعے لیبیا سے تیونس روانہ ہو گیا۔

یاد رہے کہ 2011 میں لیبیا میں فوجی آمر معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد سے ملک میں اقتدار کے حصول کے لیے مختلف گروہوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں