ترکی: صدارتی انتخابات میں اردوان کو52فیصد ووٹ حاصل

وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے استنبول میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا انہوں نے صدارتی الیکشن میں 52فیصد ووٹ حاصل کر لیے ہیں۔۔۔ فوٹو۔۔۔ اے ایف پی
وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے استنبول میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا انہوں نے صدارتی الیکشن میں 52فیصد ووٹ حاصل کر لیے ہیں۔۔۔ فوٹو۔۔۔ اے ایف پی

استنبول: رجب طیب اردوان کے ترکی کے صدر بننے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے نصف سے زائد ووٹ حاصل کر لیے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق موجودہ وزیر اعظم نے52.3فیصد ووٹ حاصل کر لیے ہیں جبکہ ان کے قریبی صدارتی امیدوار کے ووٹ بھی ان سے 13 فیصد کم ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اردوان ترکی کے پہلے ایسے صدر بنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن کا انتخاب عوام نے براہ راست کیا ہے اس سے قبل پارلیمنٹ کے ذریعے صدر کا انتخاب ہوتا تھا۔

رجب طیب اردوان گزشتہ 10 سال سے ترکی کے وزیر اعظم ہیں ان کے دور حکومت میں ترکی نے بہت تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جبکہ انہوں نے 1923 قائم ہونے والے مصطفیٰ کمال اتا ترک کے سیکولر ترکی میں اسلامی اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اردوان کے صدر بننے سے انقرہ اتا ترک کے سیکولر خیالات سے مزید دور ہو جائے گا، ترکی اس وقت نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کا ممبر بننے کا بھی امیدوار ہے۔

سی این این ترک اور این ٹی وی کے مطابق صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردوان کے مد مقابل حزب اختلاف کے امیدوار اکمل الدین احسان اغلو کو38.9فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں جبکہ بائیں بازو کی کردش جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صلاحتین دیمرتس کو 8.8فیصد ووٹ ملے ہیں۔

ترکی کے انتخابی ادارے نے سرکاری طور پر نتائج کا اعلان نہیں کیا اس کی جانب سے اسی ہفتے میں ان نتائج کے اعلان کا امکان ہے البتہ توقع کی جا رہی ہے کہ کامیاب ہونے والے صدر رجب طیب اردوان جلد اپنے حامیوں کے ساتھ ساتھ عوام سے خطاب کریں گے۔

انتخابی مبصرین کے مطابق الیکشن میں ووٹنگ کا تناسب مارچ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے مقابلے میں کم ہونے کا امکان ہے مارچ میں انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 89فیصد سے زائد تھی۔

اردوان نے اپنا ووٹ استنبول، اکمل الدین احسان اغلو نے باسفورس، اور دیمرتس نے دیاربیکر میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

واضح رہے کہ رجب طیب اردوان کی حکمران جماعت کی جانب سے پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ملک میں صدارتی نظام کے قیام کے آئینی اصلاحات کی جائیں گی جس سے تمام انتظامی اختیارات صدر کو مل جائیں گے۔

ترکی کا موجودہ آئین 1980 کے فوجی دور میں بنایا گیا تھے جس کی رو سے صدر کے پاس کابینہ کی صدارت، وزیر اعظم و دیگر وزراء، آئین سازی کے اداروں کے ارکان اور اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کا اختیار نہیں ہے۔

یاد رہے کہ رجب طیب اردوان کی جماعت اے کے پی نے مارچ میں بلدیاتی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں