گمشدہ لوگوں کا مزار

15 اگست 2014
کوئٹہ: شالکوٹ کے مری کیمپ میں واقع قبرستان — فوٹو فہیم صدیقی / وائٹ سٹار
کوئٹہ: شالکوٹ کے مری کیمپ میں واقع قبرستان — فوٹو فہیم صدیقی / وائٹ سٹار

جیسے ہی ہم کوئٹہ کے نواحی علاقے شالکوٹ میں مری کیمپ میں پہنچے، تو ہماری گاڑی کے ریڈیو سے پاکستانی ملی نغموں کی سریلی دھنیں بکھرنا شروع ہوگئیں۔ یہاں پر مری قبیلے کے تقریباً ایک لاکھ افراد رہائش پزیر ہیں۔ پاس ہی ایک پہاڑی پرعلیحدگی پسندوں کے پرچم لہرا رہے تھے۔

کچھ مٹی کے گھر تھے، جن میں سے کچھ تو سلامت تھے، جبکہ کچھ کی حالت بار بار کے سرچ آپریشن اور دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے خراب تھی۔ ریڈیو پر ملی نغمے چل رہے تھے، اور ہماری گاڑی کچے راستوں سے ہوتی ہوئی مری قبیلے کے سردار نواب خیر بخش مری کی آخری آرام گاہ کی جانب رواں دواں تھی۔

یہ پہلے صرف ایک قبرستان تھا، اب اسے ٹینٹ سے ڈھک دیا گیا ہے، جس میں بجلی فراہم کرنے کے لیے ایک سولر پینل، اور پانی کا ایک کولر بھی رکھا گیا ہے۔

بیچوں بیچ ہاتھ سے بنائے ہوئے آزاد بلوچستان کے پرچم لہرا رہے تھے، اور پھر سفید کتبوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار۔

کچھ کتبوں پر بلوچی زبان میں ان افراد کے نام کندہ تھے، جو سالوں سے گمشدہ ہیں۔ ان پر ان کا نام، قبیلہ، تاریخ پیدائش، تاریخ گمشدگی، اور اگر کوئی گمشدگی کے بعد واپس مل جائے، تو واپسی کی تاریخ لکھی تھیں۔ جبکہ کئی کتبے اپنے اوپر کچھ تحریر کیے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔

لوگوں کی اکثریت، جن میں زیادہ تر مردوں کی تھی، کچھ کہنے سے انکاری تھی، اور جو لوگ کچھ کہتے تھے، وہ اپنی بات چیت بس ہاں یا نہیں تک محدود رکھتے تھے۔

تین ماہ پہلے اپنی تعمیر کے کچھ دن بعد ہی اس یادگار کو فرنٹیئر کور نے تباہ کر دیا تھا، اور پھر دو ماہ پہلے اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، کہ "فرنٹیئر کور اس جگہ کو مزار بننے سے روکنا چاہتی تھی، پر نواب خیر بخش مری کی وفات کے بعد یہی ہوا۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے گمشدہ رشتےدار کہاں ہیں۔ کئی لوگوں کو جواب معلوم ہے، پر کہنے سے ڈرتے ہیں"۔

جب بھی بلوچستان کے گمشدہ لوگوں کی بات ہوتی ہے، تو اس حوالے سے بہت کم جوابات سامنے آتے ہیں۔ سات ماہ پہلے ایک چرواہے کو توتک کے پاس ایک پہاڑی پر ہڈیاں پڑی ملی تھیں۔ اگرچہ صوبائی حکومت کی جانب سے یکم فروری کو معاملے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج نور محمّد مسکن زئی کی سربراہی میں عدالتی ٹربیونل قائم کیا گیا، تاہم اب تک تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار ہے۔

کچھ ماہ پہلے سننے میں آیا تھا کہ رپورٹ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پیش کر دی گئی ہے، اور وہ اپنے بیرون ملک دورے سے واپسی پر رپورٹ کو منظرِ عام پر لانے یا نہ لانے کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔ لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ رپورٹ کو سیل کر دیا گیا ہے، اور اب اسے صرف اسی وقت منظرعام پر لایا جائے گا، جب سپریم کورٹ اس کی اجازت دے گی، جو اس معاملے پر پہلے ہی سو موٹو نوٹس لے چکی ہے۔

ہائی کورٹ کے ایک وکیل، جنہوں نے معاملے کی تحقیقات میں عدالتی ٹریبونل کی مدد کی تھی، کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ کبھی بھی منظر عام پر نہیں لائی جائے گی۔ "یہ رپورٹ جسٹس حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی طرز کی ہے، سابقہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے ظلم و ستم کے حوالے سے چاہے کتنی ہی بحثیں کیوں نہ ہوئی ہوں، لیکن اصل رپورٹ کبھی بھی سامنے نہیں لائی گئی"۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اجتماعی قبروں پر قائم کیے گئے اس ٹربیونل میں شامل زیادہ تر لوگوں کو یا تو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، یا پھر انہیں بلوچستان کے امن و امان کے خراب حالات کے ذمہ دار افراد کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا "جب سے میں اس کمیشن کا حصّہ بنا ہوں، میرے فون ٹیپ کیے جا رہے ہیں۔ مجھے وکیل کی حیثیت میں اپنی قابلیت کے بجائے ریاست سے وفاداری ثابت کرنی پڑتی ہے"۔

فروری میں قبروں کی دریافت کے بعد مارچ میں کچھ مزید لاشیں برامد ہوئی تھیں۔ مذکورہ وکیل کا کہنا تھا، کہ ہمیں شک ہے کہ اس علاقے میں ایک اجتماعی قبر ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ قبریں ایسے میدانوں سے ملی ہیں، جہاں پر سالہاسال سے کسی نے قدم نہیں رکھا تھا، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اجتماعی قبریں کوئی نئی بات نہیں، لیکن اپنی جان کی بازی لگائے بغیر کون یہ بات کہہ سکتا ہے؟

گمشدہ لوگوں کی برآمدگی کے لیے جدوجہد کرنے والے عبد القدیر بلوچ، جنہیں ماما قدیر کے نام سے جانا جاتا ہے، ہر روز پریس کلب کے سامنے اپنے بیٹے کے لیے فریاد کرتے ہیں، جس کی مسخ شدہ لاش انہیں 2009ء میں ملی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے کیمپ کے پاس ایک سیکورٹی گارڈ کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

"میں یہاں کتنے ہی سالوں سے موجود ہوں، لیکن کبھی بھی میرے لیے سیکورٹی کا بندوبست نہیں کیا گیا، آخر اب کیوں؟ میں اس گارڈ کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا"۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ ضرور شائع ہوگی، لیکن صرف اس وقت جب ذمہ دار افراد بیرون ملک جا چکے ہوں گے، ریٹائر یا وفات پاچکے ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں