عمران خان اور طاہر القادری اکثر برطانیہ کی 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کی مثال پیش کرتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں، کہ اگر وہاں لوگ مظاہرہ کر سکتے ہیں، تو پاکستان میں وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے کیوں احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔

چلیں ایک منٹ کے لیے ہم بھول جاتے ہیں، کہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں کبھی بھی اپنے لیڈر کی جانب سے بھڑکائے گئے ڈنڈا بردار مظاہرین کو نہیں آنے دیا جائے گا، اور یہ مان لیتے ہیں کہ مظاہرین کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وفاقی دار الحکومت میں جگہ دی جانی چاہیے۔

چلیں اپنی سرزمین کے قریب رہتے ہوئے وسط دہلی میں واقع "جنتر منتر" پر نظر ڈالیں، جہاں بے ہنگم اور شور شرابے والے مظاہرے اکثر ہوتے ہیں۔

پچھلے 3 ہفتوں سے جنتر منتر میں کئی مظاہرے ہوئے ہیں، جن میں دہلی کے ریسٹورینٹ اور کلب مالکان بھی شامل تھے، جو حکومت کی جانب سے کاروبار جلدی بند کرنے کے حکم کے خلاف سراپا احتجاج تھے، اور وہ مذہبی کارکن بھی، جو اپنے لیڈر گوپال داس کی حمایت میں گائے کی قربانی پر پابندی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔

جولائی 2012 میں مجھے جنتر منتر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت وہاں کرپشن کے خلاف جنگ لڑنے والے انا ہزارے اینٹی کرپشن بل پاس کرانے کے لیے کئی دن سے بھوک ہڑتال پر موجود تھے۔ ان کے دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ہزاروں کارکن ایک اور احتجاج کر رہے تھے۔

وہاں کرپٹ بیوروکریسی کے خلاف شدید نعرے بازی ہو رہی تھی، اور انا ہزارے کا بیچوں بیچ بیٹھنا ایک دلچسپ منظر پیش کر رہا تھا۔

انا ہزارے کے احتجاج، اور پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرے میں کافی مماثلت ہے۔

دونوں ہی گروپ شہری، مڈل کلاس، اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہیں، جو انتخابی جمہوریت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ کرپٹ سیاسی لیڈر انہیں بیوقوف بنا کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں، اور اپنی کرپشن جاری رکھتے ہیں۔

ہزارے اور خان، دونوں ہی ان کے حامیوں کے نزدیک شفاف کردار کے مالک ہیں۔ ان دونوں لیڈروں نے کرپشن سے بیزار جنوبی ایشیا کے کروڑوں لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔

لیکن عمران خان صرف ظاہری طور پر انا ہزارے سے بہتر نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی ہزارے سے زیادہ کامیاب ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے کے صرف 15 سال بعد جیسی کامیابی عمران خان نے انتخابات میں حاصل کی ہے، انا ہزارے وہ ضرور حاصل کرنا چاہیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔

جیسے جیسے اسلام آباد میں جاری ڈرامہ اپنے اختتام کی طرف جارہا ہے، ویسے ویسے یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے، کہ عمران خان جیسا کامیاب سیاستدان آخر کیوں جمہوری طریقے کو پس پشت ڈال کر اپنے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔

ان کے جانثار حامیوں کے نزدیک وہ کرپٹ سیاستدانوں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات لانا چاہ رہے ہیں۔ ان کے مخالفین کے نزدیک وہ ایک خود سر اور نا تجربہ کار سیاست دان ہیں، جو پچھلے دروازے سے اقتدار میں آنے کے لیے ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

پھر وہ لوگ ہیں، جو کبھی ادارے مضبوط کرنے کے کپتان کے وعدوں پر ان کے ووٹر بنے، پر اب اس بات پر کنفیوژ ہیں، کہ آخر عمران خان تمام ریاستی اداروں سے دور ہو کر کیوں صرف ایک "ان دیکھے" امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں، جس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے تمام مطالبات حقیقت کا روپ دھار لیں گے۔

جب بھی احتجاج کے حق پر بات ہوتی ہے، تو برطانیہ کے پرستار عمران خان 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کا حوالہ دیتے ہیں، جبکہ کینیڈین شہری ڈاکٹر طاہرالقادری بھی یہی بات دہراتے ہیں کہ تمام مہذب ممالک میں لوگوں کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

عمران خان اور طاہر القادری کے مخالفین الزام لگاتے ہیں، کہ انہوں نے پاکستان کو "بنانا ریپبلک" میں تبدیل کر دیا ہے۔

اس انتہائی جانبدار سیاسی ماحول میں آپ کیا موقف رکھتے ہیں، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کون سا ٹی وی چینل دیکھ رہے ہیں۔

لیکن اتنا ضرور واضح ہے کہ پی ٹی وی پر حملہ، ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے گیٹ توڑنے کی کوشش کرنا، اور اس کوشش کا پارلیمنٹ میں کامیاب ہونا، یہ کینیڈا کے سرسبز ملک، اور لندن کی گلیوں میں کہیں بھی نہیں ہوتا، ہاں، عراق اور لیبیا میں ہوتا ہوگا۔

دھرنے چاہے جمہوریت کے خلاف لکھا لکھایا ڈرامہ ہوں، یا پھر عمران خان، جو وزیر اعظم کے استعفے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں، کا اوور ری ایکشن، لیکن اس کے نتیجے سے پاکستانی سیاست کے طالبعلم واقف ہی ہوں گے۔


تو کیا ہمیں جنتر منتر کی طرح اسلام آباد میں بھی ایک جگہ تعمیر کر دینی چاہیے جہاں ہر قسم کے سیاسی مظاہرے ہو سکیں؟


ضرور۔

لیکن اس سے پہلے کہ ایسا ہو سکے، ہمیں سیاست کو اتنا مضبوط کرنا ہوگا، کہ حکومت کو صرف ایک آئینی طریقہ کار کے تحت تبدیل کیا جا سکے۔ جہاں وزیر اعظم صرف اپنی مدت پوری ہونے پر ہٹے، یا پھر پارلیمنٹ کی طرف سے عدم اعتماد کے بعد۔ اور جہاں کسی امپائر کے بجائے پارلیمنٹ ملک کے مسائل حل کرے۔

جہاں ہمیں یہ فکر نا ہو کہ کوئی حساس ادارہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے تحریکوں کو ہوا دے رہا ہے۔ جہاں کوئی شعلہ بیان مقرر پرانے چہروں کے ساتھ کھڑا ہو کر نئے پاکستان کے وعدے نا کرتا پھرے۔

جہاں ایک مصنوعی سیاسی بحران فاٹا میں جاری اصل بحران سے توجہ ہٹانے میں کامیاب نا ہو، جہاں 18 کروڑ عوام کو دار الحکومت میں موجود چند ہزار مظاہرین یرغمال نا بنا سکیں۔

طاہر القادری جلدی ہی کینیڈا چلے جائیں گے، جبکہ عمران خان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی ہے۔ ان دوںوں سے زیادہ اہم پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت کے اداروں کا مقدر ہے۔

بھلے ہی ان اداروں میں خامیاں ہیں، لیکن طویل مدت میں یہ اپنی جڑیں ضرور مضبوط کریں گے، اور جمہوریت کے خلاف کسی بھی سازش کے آگے جم کر کھڑے ہو سکیں گے۔

انگلش میں پڑھیں


فرحت حق امریکا کے مون ماؤتھ کالج میں پولیٹیکل سائنس پڑھاتی ہیں۔ وہ سیاست، مذہب، انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

pak going to hell Sep 06, 2014 10:37pm
good. keep writing such reasonable pieces. But Pakistani readers r not going to love such good writings.