غیر ضروری بوجھ

پاکستان کبھی بھی چین کو وہ کچھ نہیں دے سکتا، جو ہندوستان تجارتی پارٹنر اور ایک طاقتور اتحادی کی صورت میں دے رہا ہے۔
پاکستان کبھی بھی چین کو وہ کچھ نہیں دے سکتا، جو ہندوستان تجارتی پارٹنر اور ایک طاقتور اتحادی کی صورت میں دے رہا ہے۔

بیجنگ کے شاہی محل "Forbidden City" میں موجود آسمان کے مندر (Temple of Heaven) کو گول شکل میں ایسے ہی نہیں بنایا گیا تھا، بلکہ اس کے اندر موجود چین کے بادشاہ کا تخت اس بات کی نشاندہی کرتا تھا، کہ چین، اور پوری دنیا کی طاقت کا مرکز یہی جگہ ہے۔ آج کے پاکستان میں اس کی مثال اسلام آباد کے ممنوعہ ریڈ زون میں پارک دو مستطیل کنٹینروں کے جیسی ہے۔

پچھلے 3 ہفتوں سے، طاہر القادری اور عمران خان اس بات پر مصر ہیں، کہ انہیں 18 کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کی حکمرانی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔

ایک وقت تھا، کہ چینی دربار میں آنے والے ہر شخص کو بادشاہ کے سامنے سجدے کی حد تک جھک کر آداب بجا لانا ضروری ہوتا تھا، اسی طرح ان دونوں لیڈروں نے اپنی عوام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھی ان کے سامنے آداب بجا لائیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ اپوزیشن کے سیاستدان ان کے سامنے فریادی بن کر آئیں۔ اسکے علاوہ ان کو یہ امید تھی، کہ چینی صدر ایک ایسے دار الحکومت کا دورہ کریں، جسے یہ دونوں یرغمال بنائے بیٹھے ہیں، ایک ایسا دار الحکومت، جہاں ملک کے اپنے صدر کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے۔

پاکستان چین کے ساتھ تعلق میں کس قدر غرور اور بڑائی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کا اندازہ اس کے چینی صدر کے دورہِ پاکستان پر رویے سے لگایا جا سکتا ہے، جس کو صرف کچھ ہی دن پہلے مؤخر کر دیا گیا۔

بھلے ہی دونوں حکومتیں کسی فلم کے اداکاروں کی طرح اپنے تعلق کو قائم رکھنے کی کوششیں کرتی رہیں، اور بار بار دہرائیں کہ ان کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری، اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے، لیکن پاکستان کی اتراہٹ، اور چین کے کنفیوشس جیسے تحمل کے باوجود، ان کا تعلق مضبوط، مگر نازک ہے۔

یہ کہا جاتا رہا ہے، کہ پاکستان چین کو ان چیزوں کے لیے پسند کرتا ہے، جو چین پاکستان کے لیے کر سکتا ہے، اور پاکستانی خود کے ساتھ کچھ بھی سلوک کریں، چین تب بھی پاکستان کو پسند کرتا ہے۔ لیکن آئیں اسلام آباد سے ہٹ کر، ریڈ زون سے باہر نکل کر پاکستان کو چینی نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔

چین کو پاکستان کی صرف اتنی ضرورت ہے، جتنی سر درد کے مریض کو دو گولیوں کی ہوتی ہے۔ چین کو تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک تک رسائی حاصل کرنے کے لیے گرم پانیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے جیسے دوسرے غیر مستحکم افریقی ممالک کے برعکس پاکستان کے پاس اپنے بے حد قیمتی معدنیات کے ذخائر پر کنٹرول نہیں ہے۔ پاکستان کبھی بھی چین کو وہ کچھ نہیں دے سکتا، جو ہندوستان تجارتی پارٹنر، محتاط مگر دوستانہ پڑوسی، اور عالمی فورمز پر ایک طاقتور اتحادی کی صورت میں دے رہا ہے۔

چین، اور شاید انڈیا کے برعکس پاکستان کے پاس اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بمشکل وسائل ہوں گے، اتنی بجلی اور گیس بھی نہیں ہو گی کہ اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضرورت کو پورا کر سکے، نا ہی معیشت کی ترقی کے لیے صنعتی پیداوار، اور نا ہی انٹرنیشنل مارکیٹ میں مقابلے کے لیے آئی ٹی اور دیگر سائنسز کی ماہر افرادی قوت۔ تو پھر چین اس ملک کا بوجھ اٹھائے رکھنے کے لیے کیوں پابند ہو؟

پاکستان میں کوئی بھی نہیں جو اس کا منطقی جواب دے سکے۔ اور چین میں کوئی نہیں ہوگا جو یہ جواب دینے کی ہمت کرے۔ لیکن ایک بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے، کہ چین کو پاکستان میں ہونے والے ان واقعات نے انتہائی مایوس کیا ہوگا، جن کی وجہ سے ان کے صدر کا دورہ پاکستان منسوخ ہوا۔

اس طرح کے اعلیٰ سطحی ریاستی دوروں سے پہلے کئی مہینوں تک منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ملکہ الیزبتھ دوئم کے 1997 میں دورہ پاکستان سے پہلے برطانوی ہائی کمیشن، دفتر خارجہ، اور ملکہ کے گھرانے سے کئی ٹیمیں جائزہ لینے کے لیے پاکستان آئیں تھیں۔ یہاں تک کہ ملٹری کے بینڈ کے سربراہ بھی۔

ہر چیز کی بے حد تفصیل سے منصوبہ بندی کی گئی۔ ملکہ کس سے ملیں گی، استقبالیہ میں کس سے مصافحہ کریں گی، کس کو صرف سر کی جنبش ملے گی، اور کسے ایوارڈ دیں گی۔ صرف ایک چیز جسے قسمت پر چھوڑ دیا گیا تھا، وہ ایک پرانی رولز رائس گاڑی تھی، جسے ملکہ نے 1961 میں اپنے دورے میں استعمال کیا تھا، اور اس دورہ کے لیے اس میں دوبارہ جان ڈالی گئی۔

غیر ملکی شخصیات کے سرکاری دورے کوئی بس کے ٹکٹ نہیں ہوتے جنہیں آرام سے آخری منٹ میں کینسل کرا دیا جائے۔ اس دورے کو ترتیب دینے میں شامل ہر شخص کو اب ہمت سے اس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ لیکن چین نے بھی مایوسی کے ساتھ یہ دیکھا ہوگا کہ اس دورے کی منسوخی آخر ہوئی کیوں؟ ایچی سن سے فارغ التحصیل 4 لوگوں عمران خان، چوہدری نثار، اعتزاز احسن، اور شاہ محمود قریشی کے درمیان جاری مقابلے کی وجہ سے، اور اس مقابلے کو سالوں پہلے پارلیمنٹ کے بجائے ان کے ہاسٹل کے کمرے میں ہی ختم ہوجانا چاہیے تھا۔

کچھ لوگوں کے نزدیک اعتزاز احسن کا پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں مارک انٹونیو والا انداز تقریر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ جس طرح انہوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا، وہ بالکل ویسا ہی ہے، جیسا ایک برطانوی پارلیمنٹیرین نے اپنے مخالف کو کہا تھا کہ "ہم تمہارے دشمن نہیں، بلکہ تمہارے مخالف ہیں، تمہارے دشمن تو تمہارے ساتھ بیٹھے ہیں"۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری آرٹ کے مؤرخ اور مصنف ہیں۔

www.fsaijazuddin.pk

یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

shruti Sep 13, 2014 10:35pm
اتنے بڑے سکالر ہو نے کے باوجود آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اصل سرد جنگ چین اور بھارت کے درمیان نہیں بلکہ چین اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان هیں اور ہندوستان میں اتنی جرات نہیں کہ وہ مغرب کے مقابلے میں چین کو ترجیح دیں