کراچی: صوبائی حکومت ماؤں کے لیے شروع کی جانے والی بریسٹ فیڈنگ سے متعلق آگاہی کی مہم میں پیش اماموں اور بیوٹیشنوں کو بھی شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ بات منگل کے روز منعقدہ ایک میڈیا سیمینار میں بتائی گئی، اس مہم کا مقصد ماؤں کو آگاہ کرنا ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچوں کو اپنا دودھ پلائیں گی تو اس سے ان کے ساتھ ساتھ ان کے بچے کی صحت پر بھی مفید اثرات مرتب ہوں گے۔

انفنٹ فیڈنگ بورڈ کے ایک رکن ناصر حسین شاہ جو حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے ایک رکن بھی ہیں، نے کہا کہ حکومت کا ارادہ ہے کہ آگاہی مہم میں صوبے بھر کے پیش اماموں کو بھی شامل کیا جائے، اس مہم کے ذریعے ماؤں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچوں کو صرف اپنا دودھ پلائیں۔

یہ مشعل کے زیراہتمام دو روزہ ورکشاب کا اختتامی اجلاس تھا، جو صحت کے کئی بین الاقوامی اداروں کی توجہ صحت کی دیکھ بھال کے مسائل پر متوجہ کروانے کے لیے ایک ہوٹل میں منعقد کیا گیا۔

دودھ پلانے والی ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کے مسائل اس پروگرام کے دوران صحافیوں کے سامنے پیش کیے گئے۔

ناصر حسین شاہ جو سندھ اسمبلی کے رکن بھی ہیں، نے کہا کہ حکومت ماؤں اور خاندانوں پر اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ ماؤں کا نوزائیدہ بچوں کو خاص طور پر ابتدائی چھ مہینوں کے دوران اپنا دودھ پلانا کس قدر اہمیت رکھتا ہے، اس طرح وہ بہت سی بیماریوں اور انفیکشنز سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سندھ میں تمام ماؤں کو میڈیا مہم کے ذریعے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مسجد کے پیش اماموں کی خدمات حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

کراچی ڈویژن کے لیے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر اعجاز نے اس تجویز سے اتفاق کیا کہ بیوٹیشنوں کو بھی اس آگاہی مہم میں شامل کیا جانا چاہیے۔

سیو چلڈرن کے اقبال ڈیتھو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ویکسینیشن محض 29 فیصد تک ہوتی ہے اور یہ صورتحال سندھ مزید بدتر ہوجاتی ہے جہاں موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ویکسینیشن کے لیے صرف دس کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر اقبال میمن نے کہا کہ چار لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ کی تعداد میں بچے اپنی پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، جبکہ تین لاکھ بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔

صحافی مبشر زیدی نے کہا کہ میڈیا تبدیلی کے ایک محرک کے طور پر کردار ادا کررہا ہے، لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس کی توجہ سیاست اور تصادم زدہ علاقوں پر زیادہ مرکوز ہے اور صحت و تعلیم سمیت سماجی معاملات پر اس کی رپورٹنگ کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں